کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 21
تصور۱۸۹۴ء میں پیش کیا گیا ہے اور یورپ کی بعض ریاستیں ہی اس کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔اس تصور ریاست کے مطابق فلاحی ریاست کا حاکم عوام کا خادم ہوتا ہے،وہ ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتا ہے اور وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ہمارے بھولے مسلمان بھی اسی تصور ریاست کو آئیڈیل بنا کر، حکمرانوں کو ان کے فرائض یاد کروانا اور اس کےقیام کا خواب آنکھوں میں سجانا شروع کردیتے ہیں۔اس تصورِ ریاست میں دیکھیے کہ اللہ کی بندگی اور اس کی رضا کی جستجو کا کہیں کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے اور سیدنا عمر کے کارناموں میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔اس فلاحی ریاست کے تصور کے مطابق مدینہ منورہ کی نبوی ریاست بھی فلاحی نہیں کہلا سکتی۔نعوذ باللّٰہ
جبکہ اسلام نے جو مقصد کسی فرد کے لیے دیا ہے، وہی مقصدایک معاشرے کے لیے بھی ہے۔جس طرح کوئی مالدار اور باوسیلہ انسان، صرف اس بنا پر قابل تعریف نہیں بلکہ اس کی نیکی، تقویٰ، اسلامی احکام کی پاسداری کے معیار پر ہی اس کی تعریف کی جائے گی، مرنے کے بعد بھی لوگ انسان کے انہی اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں اور یہی صدقہ جاریہ باقی رہتا ہے۔اسی طرح کوئی ریاست بھی اس بنا پر قابل تعریف نہیں کہ وہ بڑی مالدار ہے، یا اس کی عمارتیں بڑی شاندار ہیں، یا وہ معاشرہ بڑا باوسائل ہے، بلکہ اسلام کی رو سے اس کا جائزہ اس بنا پر لیا جائے گا کہ وہاں ہر معاملے میں اللہ کی بندگی کا انتظام کیا جاتا ہے یا نہیں؟کوئی شخص اگر بے نماز یا مشرک ہو تو وہ اسلام میں قابل تعریف نہیں، اسی طرح کوئی ریاست اگر الحاد ودہریت پر کاربند ہو، فحاشی وبے حیائی اور شراب وسود اس معاشرے کا عام چلن ہوں تو وہ معاشرہ بھی قابل تعریف نہیں کہلا سکتا۔کسی معاشرے کے قابل تعریف ہونے کی کسوٹی اور معیار اللہ کی طاعت وبندگی ہے۔جس میں اللہ کی مخلوقات کے حقوق بھی شامل ہوجاتے ہیں۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((إِنَّ خَيْرَكُمْ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ)) [1]
''میرا دور بہترین دور ہے، پھر اس کے بعد صحابہ کا دور، پھر تابعین رحمہم اللہ کا...''
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے مثالی دور تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔نبی کریم کی ذات ہی زندگی کے ہر طبقے کے لیے اُسوہ حسنہ ہے، آپ کا یہ اُسوہ حسنہ صرف داعی ومبلغ،
[1] صحيح مسلم:۲۱۴