کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 20
کامیاب معاشرہ کون سا...؟ آج ہم مسلمان مغرب کے افکار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ہمارے عروج وزوال اور کامیابی وناکامی کے معیار بھی انہی سے اُدھار لیے ہوئے ہیں۔کوئی بڑا نامی گرامی مسلمان اُٹھے گا اور کہے گا کہ اسلام نے سب سے پہلے فلاحی رياست کا تصور دیا اور یہ فلاحی ریاست سب سے پہلے خلافتِ راشدہ میں قائم ہوئی، کوئی مسلمانوں کی سائنسی علوم میں ترقی کی تعریف کرے گا، کوئی مسلمانوں کے تمدن اور اُن کی علم دوستی کے گن گائے گا۔یہ نظریات رکھنے والے لوگ، سیدنا عمر بن خطاب کے دور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہرے دور کے مقابلے میں زیادہ مثالی اور قابل تقلید سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں پہلی بار انتظامی ادارے، وظائف، افواج، اعداد وشمار، عسکری فتوحات مؤثر شکل میں نظر آتے ہیں۔کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر مائیکل ہارٹ نے سیدنا عمر بن خطاب کو تاریخ کا سب سے عظیم حکمران قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اُنہوں نے پہلی بار درج ذیل چیزیں متعارف کرائیں: ٭ فوج اور بحریہ بطور ریاستی ادارہ ٭ پولیس اور انٹیلی جنس، جاسوسی کا نظام ٭ ڈاک اور اطلاعات کے لیے تیز گھوڑوں کا نظام ٭ حادثات اور آفات سے بچاؤ کا نظام ٭ ادارہ احتساب ٭ حکومتوں کی ضلع اور صوبے میں تقسیم اور لوکل گورنمنٹ ٭ اَموال جمع کرنے کا ادارہ اور خودکفالتی منصوبے ٭ بنیادی ضروریات: روٹی، کپڑا اور مکان کی ریاستی ذمہ داری ان سب کے خلاصہ کے طور پر ایک 'سماجی فلاحی ریاست' کو پیش کیا جاتا ہے اور محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے اقوال کی روشنی میں پاکستان کا مقصد بھی 'اسلامی فلاحی ریاست' کو قرار دیا جاتاہے۔یاد رہے کہ 'فلاحی ریاست' دراصل اہل مغرب کی مادہ پرور اصطلاح ہے جس میں حکومت اپنے باشندوں کی سماجی اور مالی بہبود کی ضامن ہوتی ہے کہ ان کے لیے صحت، اور روزگار کمانے کے معقول انتظام ہوں۔ان کے مطابق سب سے پہلے فلاحی ریاست کا