کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 19
''میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں۔اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں، توانائی والااورزورآورہے۔''
اس آیتِ کریمہ کا مفہوم اور رجحان بھی وہی پتہ دے رہا ہو جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے کہ انسان کا کام ہرمیدان میں اللہ کی بندگی کرنا ہے۔اللہ کو انسان سے رزق کا مطالبہ نہیں ہے۔حتی کہ دنیا کی جستجو او رمحبت کو باعثِ فتنہ قرار دیا گیا اور اللہ کے انعامات کو پانے کے لیے اس سے پہلو تہی اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ الله، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ)) [1]
''اللہ کی محبت چاہتے ہو تو دنیا سے بے رغبتی کرو اور جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس سے بے پروا ہو جاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے۔''
مذکورہ بالا تفصیلات سے علم ہوا کہ دنیا کے حصول کی جدوجہد سے دنیا نہیں ملتی، یا جتنی انسان چاہتا ہے، اس قدر ملنے کی بجائے اللہ کی مرضی سے ہی عطا ہوتی ہے، جبکہ انسان اللہ کی بندگی کرے، ہر معاملے میں اس کی اطاعت بجالائے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بے شمار نعمتیں عطا کرے گا۔اور اپنی فکر وتوجہ کو اللہ کی رضا کے حصول میں صرف کردے۔
ہمارا دین رہبانیت اور ترکِ دنیا کا دین نہیں ہے۔دنیاکی تمام نعمتیں اس دین کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، حتی کہ مادی نعمتیں اور دنیا کی حکومتیں بھی جیسا کہ صحابہ کرام کے دور میں افراد کو تونگری اور اُمتِ مسلمہ کو دنیا میں غلبہ نصیب ہوا تھا۔زکوٰۃ وصول کرنے والا اور مسلمانوں کے لشکروں کے سامنے ٹھہرنے والا نہ ملتا۔مسلمان بھی زمینوں پر حکومت کی بجائے دلوں پر حکومت کرتے، وہ اِن انسانوں کو اپنا بندہ بنانے اور ان پر اپنی اطاعت کے طوق کسنے کی بجائے اللہ کی بندگی اور عبادت کی تلقین کیا کرتے۔خود بھی اللہ کے مطیع ہوتےاور ان کے محکوم بھی اسی ایک اللہ کے مطیع بنتے۔یہی کلمہ توحید ہے، جس کی پاسداری کرنے والی قوم کو دنیا جہاں کی عظمتیں اور نعمتیں نصیب ہوتی ہیں۔
[1] سنن ابن ماجہ:۴۱۰۲