کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 18
رب کا دیا ہوا ہی بہتر اور باقی رہنے والاہے۔اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما ره۔ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔''
ان آیاتِ کریمہ پر غور کریں تو ان کا رجحان واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا کی نعمتوں کی طرف للچانے سے روکا اور اُنہیں اس بات کی تلقین کی ہے کہ تمہارا کا م اللہ کی بندگی کرنا اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا ہے، ہمیں تم سے کوئی روپے پیسے کا مطالبہ نہیں ہے۔اب جو اللہ کا بندے سے مطالبہ ہے، جس کے لیے اس نے انسان کو تخلیق فرمایا ہے، انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جو اللہ کا حق ہے یعنی ہر جگہ اللہ کی بندگی، پھر اللہ تعالیٰ کا انعام اور وعدہ یہ ہے کہ دنیا میں اس کو سکون واطمینان اور آخرت میں جناتِ نعیم کا وارث بنا دے گا۔
ایک اور مقام پر یوں فرمایا :
﴿وَاصبِر نَفسَكَ مَعَ الَّذينَ يَدعونَ رَبَّهُم بِالغَدوٰةِ وَالعَشِىِّ يُريدونَ وَجهَهُ ۖ وَلا تَعدُ عَيناكَ عَنهُم تُريدُ زينَةَ الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ﴾[1]
''اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں۔خبردار! تیری نگاہیں اُن سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔''
اس آیت کریمہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طاعت وبندگی کی تلقین،دنیوی زینتوں سے بے پروا ہونے اور خواہشاتِ نفس سے دوری کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہی وعدہ کیا ہے کہ رزق دینا اور ضروریاتِ زندگی پوری کرنا تو اللہ کا کام ہے،تمہیں رزق کی جستجو میں فکر مند ہونے کی بجائے بندگی میں اپنی کوششیں صرف کرنا چاہییں۔ایک اور آیتِ کریمہ ملاحظہ کریں:
﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ()ما أُريدُ مِنهُم مِن رِزقٍ وَما أُريدُ أَن يُطعِمونِ () إِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ﴾ [2]
[1] سورةالكهف: ۲۸
[2] سورة الذاريات: ۵۶۔۵۸