کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 17
بھی اچھا سلوک کر۔'' اوپر یہ سارے نظریے مستند ترین ذرائع علم یعنی قرآ ن وحدیث کے براہ راست ترجمے کے ذریعے بیان کیے گئے ہیں۔دراصل جس طرح کوئی دکاندار صحیح سودا فروخت کرکے، دھوکہ دہی سے بچ کر، کم منافع لے کر بظاہر اپنا نقصان لیکن اپنے کاروبار کا دائمی فائدہ کررہا ہوتا ہے کہ اس طرح گاہک اس کے پاس وافر تعداد میں آئیں گے۔اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس طرح وہ گاہک کا دل جیت کر، ہمیشہ کے لیے اس کو خرید لیتا ہے اور جو دکاندار زیادہ منافع کے لالچ میں دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے، بظاہر وہ زیادہ فائدہ حاصل کرتا ہے لیکن دراصل اپنا دائمی نقصان کرتا ہے۔اسی طرح دنیا کی نعمتیں لالچ وہوس سے کھینچ لینے کی بجائے اللہ عزوجل کی عنایت ومہربانی سے حاصل ہوتی ہیں۔اللہ کی بندگی کو بھی قرآن کریم نے تجارت قرار دیا ہے، جو دنیا میں 'حیوۃ طیبہ' و 'حسنہ' کے حصول اور آخرت میں عذابِ الیم سے چھٹکارے اور جناتِ نعیم کا وارث بننے کی تجارت ہے۔جو انسان ان نعمتوں کو اللہ سے غافل ہوکر لینا چاہتا ہے، وہ دراصل عاجل فائدہ لیتے لیتے اپنا دائمی نقصان کرلیتا ہے، اللہ کے خزانے ا س کے لیے بند ہوجاتے ہیں اور جو اس کو میسر آتے ہیں، ان سے فائدہ بھی اس کے لیے حتمی اور کارآمدنہیں رہتا اور آخرت میں وہ حقیقی خسارہ اُٹھانے والوں میں سے ہے۔ دنیا کی نعمتوں کے حصول میں اپنے آپ کو کھپا لیناپسندیدہ نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی نعمتوں کے حصول کی طرف متوجہ ہونے سے منع کیا ہے۔اور ایسی نعمتیں جو اللہ تعالٰے کا حق بندگی نظر انداز کرکے استعمال کی جاتی ہیں، وہ تو وبال بن جاتی ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ تلقین کی ہے: ﴿وَلا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلىٰ ما مَتَّعنا بِهِ أَزو‌ٰجًا مِنهُم زَهرَ‌ةَ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا لِنَفتِنَهُم فيهِ وَرِ‌زقُ رَ‌بِّكَ خَيرٌ‌ وَأَبقىٰ () وَأمُر‌ أَهلَكَ بِالصَّلو‌ٰةِ وَاصطَبِر‌ عَلَيها لا نَسَٔلُكَ رِ‌زقًا نَحنُ نَر‌زُقُكَ وَالعٰقِبَةُ لِلتَّقوىٰ ﴾[1] ''اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو دنیا کی آرائش دے رکھی ہیں تاکہ اُنہیں ان کی آزمائش میں مبتلا کردیں۔تیرے
[1] سورةطہ: ۱۳۱۔۱۳۲