کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 11
ہوتا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاے کرام کا پیغام سوچ وفکر کے مرکز ومحور کو متعین کرلینے کا ہوتا ہے۔انسان کی اصلاح کا ہوتا ہے۔جب انسان کی اصلاح ہوجاتی ہے تو اس انسان کے تمام متعلقات کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے۔
اسلام دنیا کو بھی 'حسنہ' بناتا ہے!
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مال ودولت، ترقی، دنیا میں حکومت وغلبہ، خوشی واطمینان، اور اللہ کی بے پایاں نعمتوں کا اسلام کسی طور مخالف نہیں ہے۔لیکن ان نعمتوں کے حصول کا طریقہ براہِ راست نہیں۔اسلام نے کہیں یہ نہیں کہا کہ مال جمع کرنے اور حکومتیں حاصل کرنے میں ساری صلاحتیں کھپا دو، نعمتوں کی بھرپور جدوجہد کرو بلکہ یوں کہا ہے کہ اللہ کی رضا واتباع اور زندگی کے ہر میدان میں اس کی بندگی کے تقاضے پورے کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ انعامات بھی عطا کرے۔یہ سب نعمتیں اللہ کی عطا اور تحفہ ہیں۔پہلے دیکھیے کہ اسلام نے نعمتوں کے حصول کا طریقہ کیا بیان کیا ہے پھر ان نعمتوں کے براہِ راست حصول کی نفی کا تذکرہ آگے...
۱۔کسی فرد اور ملّت کے لیے عظیم الشان نعمت دنیا میں اقتدار و اختیار اور امن وامان ہے، اس کے حصول کا طریقہ ربّ العالمین نے یوں بیان کیا کہ میری بندگی کریں، میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں، ایمان لائیں اورعمل صالح کریں تواللہ اُن کو زمین کا وارث بنادے گا
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَرضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُم دينَهُمُ الَّذِى ارتَضىٰ لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمنًا يَعبُدونَنى لا يُشرِكونَ بى شَئًا وَمَن كَفَرَ بَعدَ ذٰلِكَ فَأُولٰئِكَ هُمُ الفٰسِقونَ ﴾[1]
''تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے تو اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ اُنہیں ضرور زمین میں حکومت دے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو اُن سے پہلے تھے اور یقیناً اُن کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لیے وه پسند فرما چکا ہے اور اُن کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، بس وه میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ
[1] سورة النور: ٥٥