کتاب: محدث شمارہ 365 - صفحہ 10
پاتے اور کھاتے۔'' اللہ کی اطاعت وبندگی اور اس کے لیے یکسو ہوجانے کی انسان کی زندگی میں کس قدر اہمیت ہے، اس کا پتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت سے بھی چلتا ہے جو آپ نے قریش مکہ کو دی۔جب جناب ابو طالب مریض ہوگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس تشریف لائے تو اس موقع پر رؤسائے قریش نے موقع غنیمت جانا کہ آپ پر ابو طالب کا دباؤ استعمال کیا جائے۔ابو جہل گویا ہوا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، اس کی سرزنش کیجیے تو ابوطالب کے جواب میں آپ نے فرمایا : ((إِنِّى أُرِيدُ مِنْهُمْ كَلِمَةً وَاحِدَةً، تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّى إِلَيْهِمُ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ)). قَالَ: كَلِمَةً وَاحِدَةً. قَالَ: ((كَلِمَةً وَاحِدَةً)). قَالَ: ((يَا عَمِّ! قُولُوا لاَ إِلَهَ إِلَّا الله)). فَقَالُوا: إِلَهًا وَاحِدًا ﴿ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ اِنْ هٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ﴾[1] ''میں تو اِنہیں ایک کلمہ کی تلقین کرتا ہوں کہ اگر مان لیں گے، تو عرب ان کے مطیع اور عجم باج گزار بن جائیں گے، دنیا کی فرمانروائی ان کو ملے گی۔ابو طالب بولے: صرف ایک کلمہ، آپ نےجواب دیا : بالکل صرف ایک کلمہ... یہ اللہ کی توحید کا اقرار کرلیں۔ سردارانِ قریش بولے: ''ایک الٰہ، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا... ہم نے تو یہ بات پچھلے کسی دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے۔'' غور کیجیے کہ کلمہ توحید میں ایسی کیا قوت ہے جو صادق وامین صلی اللہ علیہ وسلم اس کو خلوصِ دل سے تسلیم کرلینے پر دنیا جہاں کی حکمرانی کی نوید سنا رہے ہیں۔یہ کلمہ توحید، تمام انبیا کی دعوت کا اصل الاصول اور مرکزی نکتہ [2]رہا ہے، یہی اسلامی عساکر کی بنیادی دعوت [3]رہی ہے۔اور اس کی روح کے مطابق عمل کرلیا جائے اور اپنی پوری زندگی کو عبادت وعبدیت کے تقاضوں میں ڈھال لیا جائےتو کوئی بھی فرد اور ملّت دنیا کی سپرپاور بن جاتی ہے۔زبانِ رسالت اور تاریخ سے یہی ثابت
[1] جامع ترمذى: ۳۲۳۲ [2] ﴿وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَ‌سولٍ إِلّا نوحى إِلَيهِ أَنَّهُ لا إِلٰهَ إِلّا أَنا فَاعبُدونِ ﴾ ( سورة الانبياء: ٢٥) [3] ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ)) صحيح بخارى: ۱۳۹۹