کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 99
کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔'' قرآنِ مجید اور احادیثِ نبوی میں واضح کیا گیا ہے کہ غصہ شیطان کے اشتعال کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔اسی لیے فرمایا: ﴿وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ﴾[1] ''جب شیطان تمہارے دلوں میں اشتعال پیدا کرے تو تم اللّٰہ کی پناہ طلب کیا کرو۔'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی توضیح فرمائی کہ شیطان اس بات سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ اس کی پوجا کی جائے لیکن یہ لوگوں کو آپس میں بھڑکائے گا۔فرمایا کہ شیطان اپنے کارندوں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بھڑکائیں اور اس کے نزدیک سب سے بڑا مقرّب وہ کارندہ ہوتا ہے جو لوگوں کو بھڑکاتا ہے۔اس کے کارندے اس کے سامنے اپنی اپنی کارگزاری پیش کرتے ہیں اور جن جن جرائم کا ارتکاب انہوں نے لوگوں کو اکسا کر کروایا ہوتا ہے ان کا ذکر کرتے ہیں لیکن بڑا شیطان لڑائی کے لیے بھڑکانے والے کارندے پر سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے اس وار کو ناکام بنانے کا حکم فرمایا کہ ((لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَالْغَضَبِ)) [3] ''پہلوان وہ شخص نہیں جو بدلہ لینے میں زیادہ سخت ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کا علاج بھی مختلف طریقوں سے بیان فرمایا۔غصے کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنے کا حکم بھی دیا۔اس سے شیطان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصے کی حالت میں اگر کوئی کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔''[4] بہت سے جرائم کا محرک فوری اشتعال ہوتا ہے جسے قانون کی زبان میں Sudden Provocation کہا جاتا ہے۔یہ کیفیت غصّے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔قرآن نے اس کے
[1] الاعراف: ۲۰۰ [2] مسند احمد: ٣؍٣١٤ [3] صحیح بخاری: ۶۱۱۴ [4] سنن ابو داود:۴۷۸۲