کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 98
مل جل کر زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے بڑے انعام کا ذکر فرمایا جو باہمی نزاعی معاملات میں ضبط وتحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے کشیدگی سے اجتناب کرتا ہے۔بلکہ اس موقع پر تو شریعت اسلامیہ میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے اگر کچھ جھوٹ بھی بولنا پڑے تو اس کی بھی اجازت ہے۔مسلم شریف میں روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ فَيَنْمِي خَيْرًا أَوْ يَقُولُ خَيْرًا)) [1]
''وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں میں صلح کروائے اور بہتر بات کہے۔''
صلح کے لیے جھوٹ بولنے کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ صلح کروانے والا دنوں فریقوں کو عمدہ اور صلح کی طرف آگے لے جانے والی باتیں بتلائے کہ ان کے درمیان بدگمانیاں اور اشتعال پیدا کرنے والی باتیں کم ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا میں تمہیں روزے نماز اور صدقے سے بھی بڑھ کر ایک عمل کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ نے کہا کہ بتائیں۔فرمایا: دو بندوں کے درمیان صلح کروانا۔'' [2]
اشتعال انگیز رویے کی ممانعت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے فساد کے محرکات کا مستقل طور پر سدِ باب کر کے ان اسباب کا تدارک فرما دیا جو اس کا سبب بنتے ہیں۔اس سلسلے میں اسلام کا نظامِ اخلاق سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔غصہ وہ بنیادی جڑ ہے جو فساد کے آغاز کا سبب بنتا ہے۔قرآن میں ہے کہ غصے کو قابو میں رکھنے والے اللّٰہ کو بہت محبوب ہیں۔فرمایا:
﴿وَالكٰظِمينَ الغَيظَ وَالعافينَ عَنِ النّاسِ وَاللّٰہُ يُحِبُّ المُحسِنينَ ﴾[3]
''وہ لوگ جو اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللّٰہ نیکی
[1] صحیح مسلم: ۶۶۳۳
[2] سنن ابو داود:۴۹۱۹
[3] آل عمران :۱۳۴