کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 97
ہاتھ سے غیر ارادی طور پر کسی دوسرے مسلمان کو نقصان اور تکلیف پہنچے۔چہ جائیکہ مسلمان دوسروں کے خلاف ہتھیار بند ہو کر لڑے۔فرمایا گیا کہ ایسا نہ ہو کہ غیر ارادی طور پر تیر کی نوک کسی کو لگ جائے اور وہ تکلیف کی حالت میں مشتعل ہو کر جوابی حملہ کر دے حالانکہ اس میں دوسرے شخص کی نیت داخل نہ تھی۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لے کر چلنےسے بھی منع فرمایا۔حضرت جابر روایت کرتے ہیں: ((نَهَى رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولًا)) [1] ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ننگی تلوار دینے (پکڑانے) سے منع فرمایا (مبادا اس کو اچانک لگ جائے)۔'' شریعتِ اسلامیہ کا مزاج یہ ہے کہ وہ ان اسباب کا بھی تدارک کرتی ہے جو کسی خرابی کا سبب بنتے ہیں۔زیر بحث موضوع کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بڑا اہم ہے کہ آپ نے فتنے فساد کے زمانے میں ہتھیاروں کے عام کا روبار کو ممنوع قرار دیا ہےتاکہ فساد کی جڑ کٹ جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل درآمد کرانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس بنا پر یہ اُصول اَخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فتنے فساد کے زمانے میں ہتھیاروں کی تیاری، ان کی خریدوفروخت پر سرکاری طور پر پابندی لگا دے۔اگر تحفظ کے لیے اسلحہ عوام کی ضرورت ہو تو اسے محدود دائرے میں خصوصی اجازت اور لائسنس کے ساتھ ان کے درست استعمال کی ضمانت کے ساتھ اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔اسلحہ کی سمگلنگ روکنا بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ اسلحہ کی نمائش کی جائے۔نمائش کے دوران کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ایسا اکثر اسلحہ کی نمائش کے دوران ہوتا ہے، ان احادیث میں اس بات کی واضح ممانعت موجود ہے۔اس رجحان کا ایک مزید برا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرا فریق بھی اسی طرح اسلحہ لیکر نکل آئے تو فساد برپا ہو سکتا ہے۔اسلحہ کی نمائش کا برا نتیجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے کو مرعوب کرنا غرور اور تکبر کا مظاہرہ بھی ہے۔
[1] جامع ترمذی: ۲۱۶۳