کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 96
نوکوں کو پکڑ کر رکھے، ایسا نہ ہو اس کی نوک کسی کو لگ جائے۔[1]
مسلم شریف میں روایت ہے کہ ایک شخص تیر لے کر مسجد میں آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پیکانوں سے پکڑ لو۔دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ پیکانوں سے پکڑ لو ایسا نہ ہو کہ کسی کو لگ جائے۔ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ ''خدا کی قسم! ہم نہیں مرے کہ اس کے بعد ہم نے تیر دوسروں کے منہ پر ہی مارا۔یعنی تیر چلایا تو جنگ کے دوران ہی چلایا۔'' [2]
اس بے احتیاطی کی عملی شکلیں ہم اخبارات میں پڑھتے رہے ہیں کہ بے احتیاطی سے بندوق صاف کرتے ہوئے سامنے والے کو گولی لگ گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کا اطلاق اگر ہم اس طرح کی صورت حال پر کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص بندوق وغیرہ صاف کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لے کہ پہلے اچھی طرح دیکھ لے کہ کہیں اس کے اندر کوئی گولی تو موجود نہیں۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کا اطلاق شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی اور فائرنگ پر بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر خوشی اور جذبات میں کئی دفعہ من چلے نوجوان حادثات کر بیٹھتے ہیں۔باشعور شہریوں میں اتناشعور ہونا چاہیے کہ کیا خطرناک کام کر کے ہی خوشی کا اظہار ہو سکتا ہے؟ اسی طرح بسنت وغیرہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی کے حوالے سے ان احادیث سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر بھی غیر ذمہ دارانہ انداز سےفائرنگ کی جاتی ہے۔
اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مسلمان کو تلقین کی ہے کہ وہ اس بات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے کہ اگر وہ کوئی ایسی چیز دیکھے جس سے دوسرے کو تکلیف ہو سکتی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس اذیت دینے والی چیز کو راستہ سے ہٹا دے۔اس سلسلے میں ایک روایت میں ایک پتھر ہٹانے، ایک میں ایک درخت کی ٹہنی ہٹانے جو لوگوں کو تکلیف دیتی تھی، ایک روایت میں راستے میں کانٹا ہٹا دینے پر انسان کو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔
گویا ان احادیث میں فرمایا گیا کہ اسلام اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ کسی مسلمان کے
[1] سنن ابو داود:٢٥٨٧
[2] صحیح مسلم:۶۶۶۲،۶۶۶۴