کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 94
ابو ثعلبہ خشنی کا بیان ہے کہ اس کے بعد کیفیت یہ ہو گئی تھی کہ جب کبھی فوج کسی جگہ اُترتی تو اس کا گنجان پڑاؤ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ایک چادر تان دی جائے تو سب اُسکے نیچے سما جائیں گے۔[1]
اسی طرح جنگ کے سفر کے دوران شوروہنگامہ بپا ہوتا۔اس کا نام ہی دغی پڑ گیا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کار میں بھی اصلاح فرمائی۔حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب کسی وادی میں پہنچتے تو زور وشور سے تکبیر وتہلیل کے نعرے بلند کرتے۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! وقار کے ساتھ چلو تم جس ہستی کو پکار رہےہو، وہ نہ بہرا ہے اور نہ غائب۔وہ تمہارے ساتھ ہے، وہ سب سنتا ہے اور بہت قر یب ہے۔[2]
دنیا کو شائستگی اور تہذیب سکھانے میں ان اصلاحات نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔ان تعلیمات سے لوگوں کے ذہن اس انداز سے ڈھل گئے کہ وہ معمول کی زندگی میں بھی تہذیب وشائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام بنیادیں مسمار فرما دیں جو باہم عداوتیں پیدا کرتی اور فتنہ فساد کا سبب بنتی ہیں۔
ابوداؤد شریف میں روایت ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر تھے۔ایک شخص سو گیا اور کسی دوسرے نے اس کی رسّی جو وہ اپنے ساتھ لے کر سو رہا تھا، مذاق میں اٹھالی تاکہ وہ پریشان ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا)) [3]
''مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو مرعوب وخوفزدہ کرے۔''
فساد کا سبب بننے والا کام بھی نہ کیا جائے
مولانا بدر عالم میرٹھی 'ترجمان السنۃ' میں واقدی اور ابن عساکر کے حوالے سے یہ واقعہ بیان
[1] سنن ابو داود:۲۶۲۸
[2] صحیح بخاری : ۲۹۹۲
[3] سنن ابو داؤد: ۵۰۰۴