کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 93
اسے دم سے پکڑ کر باہر نکالا جائے۔[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فہم وفراست کی بنیاد پر اس بات سے آگاہ تھے کہ اگر پرانے قبائلی تعصبات نے دوبارہ سر اُٹھا لیا تو ان تعصّبات کو دبایا نہیں جا سکے گا۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی کے ساتھ تعصّبات کا استیصال فرما دیا۔
ان تمام احادیث کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عصبیتوں کا استیصال فرما دیا ہے۔سیاسی مفادات اور جتھا بندی کی خاطر لسانی، علاقائی اور نسلی تعصب کو اُچھالا جاتا ہے۔ان تعلیمات کی روشنی میں پاکستان میں قوانین تشکیل دیے جائیں کہ کسی بھی مذہبی، سیاسی جماعت اور گروہ کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ گروہی بنیادوں پر کوئی تحریر اور لٹریچر طبع کروائے۔اس سلسلے میں حکومت ایک مخصوص شعبہ تشکیل دے کر یہ ذمہ داری اس کے سپرد کر دے کہ وہ کسی بھی طرح کی عصبیت اور گروہ بندی کا مواد منظر عام پر نہ آنے دے۔موجودہ سنسر شپ کے نظام کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔کوئی گروہی تحریر چھپوانے پر پابندی لگا دی جائے اور اشتعال پیدا کرنے والے مواد کو چھاپنے والے پریس کو پابند کر دیا جائے کہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں شدید سزا دی جا سکتی ہے۔اس طرح کا مواد تقسیم کرنے والے، لکھنے والے اور اس کام میں کسی بھی طرح کی معاونت کرنے والے کو سزا کا مستوجب قرار دیا جائے۔
اسلام بد امنی اور فتنے فساد کو ناپسند کرتا ہے۔وہ کسی ایسی حرکت اور فعل کوروا نہیں رکھتا جو بد امنی پر منتج ہو۔عربوں کی عادت تھی کہ جب جنگ کے لیے نکلتے تو راستے میں لوگوں کو تنگ کرتے۔بد امنی پھیلاتے، شوروہنگامہ کرتے، لوگوں کے لیے راستہ پرچلنا مشکل ہو جاتا۔آپ کے پاس اس کی شکایت پہنچی۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا:
((أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ )) [2]
''جس نے راستے کو تنگ کیا یا راہگیروں کو تنگ کیا اس کا جہاد نہیں ہو گا۔''
[1] سنن ابو داود:۵۱۱۷
[2] سنن ابو داود:۲۶۲۹