کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 92
جب یہ زمانہ آئے تو اپنی تلوار لے کر اُحد پہاڑ پر چلا جا اور تلوار کو اس پر مار یہاں تک کہ یہ ٹوٹ جائے۔[1] مسلمانوں میں تعصّبات اور گروہ بندی کی مذمت اور اس کا خاتمہ پوری دنیا میں اس وقت مختلف عصبیتوں سےزہر آلود ہو چکی ہے۔لوگ رنگ ونسل، مذہب اور زبان کی عصبیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام عصبیتوں کا بڑی شدت سے خاتمہ فرمایا۔ ۱۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللّٰہ عزوجل نے جاہلیت کا عیب اور اپنے آبا پر فخر کرنا تم سے دور کر دیا ہے، یعنی تمہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔انسان دو طرح کے ہی ہیں:متقی مؤمن اور دوسرا بد کردار، سخت دل والا۔تم سب آدم کی اولاد ہواور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔''[2] اس کے مقابلے میں قرآنِ مجید نے ہمیں یہ تصور دیا کہ سب مسلمان آپس میں برابر ہیں۔کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں کہ وہ دوسروں سے اپنے آپ کو برتر سمجھ کر اُنہیں ادنیٰ انسان سمجھنے لگے۔ ۲۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''عصبیتِ جاہلیہ یہ ہے کہ تو ظلم وزیادتی کے کاموں میں بھی اپنی قوم کی حمایت کرے۔'' [3] گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کا ساتھ دینے کی حدیں بھی بیان فرما دیں کہ قوم کی مدد صرف اس حد تک ہو کہ قوم کا موقف حق وانصاف پر مبنی ہو۔جتھے بندی، گروہی سیاست اور پریشر گروپ تشکیل دے کر ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر دوسر وں کی مدد کرنا اور جومفاد پرست اپنی قوم کی حمایت کرے وہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کنویں میں گر پڑے اور
[1] سنن ابو داؤد: ۴۲۴۶ [2] سنن ابو داؤد: ۵۱۱۶ [3] سنن ابن ماجہ:۳۹۴۹؛سنن ابو داود:۵۱۱۹