کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 91
''جب دو مسلمان آپس میں تلوار لے کرلڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے جہنمی ہونے کا سبب یہ بیان فرمایا کہ وہ بھی تو دوسرے کو قتل کرنے کے لیے تلوار لے کر نکلا تھا۔اگر اس کا داؤ چلتا تو یہ اسے قتل کر دیتا۔اب دوسرے کا داؤ چل گیا۔
۲۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے اور بد امنی کے ماحول میں خصوصی طور پر ہدایات دی ہیں۔آپ نے فرمایا: ((إِيَّاكُمْ وَالْفِتَنَ فَإِنَّ اللِّسَانَ فِيهَا مِثْلُ وَقْعِ السَّيْفِ)) [1]
''فتنوں سے بچو کیونکہ ایسی صورت میں زبان تلوار سے بھی بد تر کردار ادا کرتی ہے۔''
۳۔جب مسلمانوں کے اندر فتنہ فساد پیدا ہو جائے اور اس بات کی وضاحت نہ ہو رہی ہو کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون، تو ان سب سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ فَإِنْ دُخِلَ يَعْنِي عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ)) [2]
''فتنے کے زمانے میں جو شخص بیٹھا ہے وہ کھڑےہوئے شخص سے بہتر ہے اور کھڑا ہوا شخص اس شخص سے بہتر ہے جو چل رہا ہے اور جو چل رہا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو دوڑ رہا ہو۔ان فتنوں میں اپنی کمانیں توڑ ڈالو۔کمانوں کے چلّے کاٹ ڈالو اور اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کر دو۔اگر کوئی فتنہ باز کسی کے گھر میں گھس آئے کہ اسے قتل کرے تو وہ ایسا ہی کرے جیسا آدم کے بیٹوں میں سے اُس نے کیا تھا جو بہتر تھا۔''
ان تمام فرامین کا مفہوم ومقصود یہی ہے کہ ان فتنوں میں شریک نہ ہوا جائے، اگر کوئی زیادتی کر بھی جائے تو محض امن وامان کی خاطر اس کی زیادتی کو برداشت کر لو۔
۴۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عنقریب ایک فتنہ پیدا ہوگا اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گا
[1] سنن ابن ماجہ: ۳۹۶۸
[2] سنن ابو داؤد: ۴۲۵۹