کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 90
آپ نے فرمایا: ((تلزم جماعةَ المسلمين وإمامَهم)) ''مسلمانوں کی جماعت سے منسلک رہنا اور ان کے امام سے تعلق قائم رکھنا۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اگر مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام موجود نہ ہوں تو پھر کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر سب فرقوں کو چھوڑ دے اور اگرچہ ایک درخت کی جڑ چباتے چباتے تو مر جائے۔''[1] آپ کے بیان کا مقصود و مدعا یہ ہے کہ مرتے دم تک مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ دینا اور امام کی اطاعت کرتے رہنا۔کیونکہ اس سےطوائف الملوکی،بد نظمی اور انتشار پیدا ہوتا ہے جس سے مملکت کمزور یا مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔دیگر روایات موجود ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امیر کی اطاعت ہر حالت میں جاری رکھی جائے۔فتنے وفساد کے حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے کی تلقین فرمائی جس میں فرد کا نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ ۴۔فرد اگر جماعت سے کٹ جائے تو اس میں اس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد کو فرداً فرداً بکھر جانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی،بلکہ اپنے آپ کو نظم میں پروئے رکھنے کا حکم دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں ہمیں متنبہ فرمایا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگ جانا۔فرمایا: ((لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)) [2] ''میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ۔'' فتنہ اور قتل وغارت سے گریز ۱۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنے فساد کے دور کی نشاندہی فرمائی اور اس دور میں ایک مسلمان کے طرزِ عمل کے بارے میں راہنمائی بھی فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِأَسْيَافِهِمَا إِلَّا كَانَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ)) [3]
[1] صحيح مسلم: ۴۸۹۰ [2] سنن ابو داود: ٤٢٤٤ [3] سنن ابن ماجہ:۳۹۶۳