کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 9
دہشت گردی کا سیاسی حل؛ مذاکرات و معاہدات اس الم ناک صورتحال کو آخرکارختم ہونا ہے۔نائن الیون سے قبل بھی یہی مسلمان پرسکون طور پر پاکستانی معاشرے میں بستے تھے، اگر ان کے مسائل کا سنجیدہ طور پر جائزہ لیا جائے اور ان وجوہات کو خلوص سے ختم کیا جائے تو پھر دوبارہ وہ اسی طرح امن وامان کا راستہ اختیار کرلیں گے۔عالمی قوتوں کی ہمیشہ یہ کوشش اور پالیسی رہی ہے کہ اہل اسلام کو آپس میں لڑا کر، دونوں طرف سے اسلام کو بدنام کیا جائے۔خود کسی بھی جدوجہد کی بجائے، ڈالر اور مفادات کا لالچ دے کر،فریقین کو زیادہ سے زیادہ لڑنے پر اُکسایا جائے اور اس صورتحال سے اپنے فوائد اور من مانا نقشہ حاصل کیا جائے۔ماضی میں اگر انگریز استعمار کے دور میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کی مسلکی تقسیم کو پیدا کرکے، اس تفریق کو بڑھایا گیا تو حال میں بھی مسلمانوں میں 'روشن خیال ومعتدل مسلمان' اور 'شدت وانتہا پسند یا بنیاد پرست' مسلمانوں کی تقسیم پیدا کرکے اس خلیج کو گہرا کیا جارہا ہے۔عالمی میڈیا ان اصطلاحات کو استعمال کرتا اور اسے علاقائی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کی زبانوں پر چڑھا دیتا ہے۔جہاں جہاں امریکہ گیا ہے، وہاں وہاں مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر 'ڈیوائیڈ اینڈ رول' کے تحت شیعہ سنّی تقسیم اور عوام اور فوج کی تقسیم وغیرہ کو پروان چڑھا کر مسلمان کو مسلمان کے خلاف لڑایا گیا۔مملکت پاکستان میں اس صورتحال سے کئی قوتوں نے فائدہ اُٹھایا۔سنّی علما کو قتل کروانے میں مبیّنہ طور پر ایک پڑوسی اسلامی ملک کے ملوّث ہونے کی خبریں بھی سیکورٹی ایجنسیوں کے حوالے سے میڈیا کی زینت بنی ہیں۔جب کہ اسلام کی روسے مسلمانوں کا باہمی تعلق تعصب وتشدد اور فرقہ واریت کے بجائے اتحاد، جسد اور ملتِ واحدہ اور ایک دوسرے کے امن وامان کے تحفظ کا ہے، مسلمان کو تکلیف پہنچانا، اس پر لعن طعن کرنا اس کے قتل جیسا سنگین جرم ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ((زوال الدّنیا کلها أهون علىٰ اللّٰہ من قتل رجل مسلم)) [1]''دنیا بھر کی بربادی، اللّٰہ کے ہاں ایک مسلمان کے قتل سے زیادہ ہلکی ہے۔''کے مصداق ایک سنگین ترین قضیہ ہے۔ دنیا کا ہر مسئلہ آخر کار کسی حل کی طرف ضرور جاتا ہے اور یہ حل اکثروبیشتر میز پر ہی ہوتا
[1] جامع ترمذی:۱۳۹۵