کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 86
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تُو ہے مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، اَبَد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تُو، جاوداں تُو ہے حِنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے،معمارِ جہاں تُو ہے سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا یہی مقصودِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی اُخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیرِ ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا رازِ داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اُخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی! نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سازِ فطرت میں نوا کوئی نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صَنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے[1]
[1] نظم 'طلوع اسلام' کے منتخب اشعار ... بانگِ درا : ۲۹۷ تا ۳۰۵