کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 85
لہٰذا وہ لوگ ہمیں اُن سے محبت و عقیدت کی کیا تعلیم دیں گے جن کی اپنی کتابیں ان پر ایسے گندے اور گھناؤنے الزام لگاتی ہیں کہ پڑھنے والے کی شرم سے آنکھیں جھک جاتی ہیں۔یہ مقدس لوگ تو قیامت تک پوری انسانیت اور زندگی کے لیے رول ماڈل ہیں۔'ایک شام مسیح کے نام والا' فلسفہ بالکل غلط اور ناقص ہے۔ہر صبح و شام اللّٰہ اور اس کے دین کے نام ہونی چاہیے۔یہ لوگ محسنوں کی قدر اور رشتوں کا مقام ہمیں کیا بتائیں گے جو اپنے کتوں کو تو اپنے ساتھ سلاتے ہیں مگر اپنے والدین کو اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں۔ان کے نزدیک تو تہذیب و تمدن کا مطلب ہی مذہب سے آزادی، ناچ گانا، مصوری، بت تراشی و بت پرستی، مردوزَن کا اختلاط، کثرتِ شراب نوشی، جنسی آوارگی، بے راہ روی، ہم جنس پرستی، سود اور لوٹ کھسوٹ ہے،یعنی ہر طرح کی مادرپدر آزادی جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا: اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے[1] جبکہ اسلام کے نزدیک لفظ تہذیب کا معنی ہی سجانا، آراستہ کرنا، حسِین بناناہے۔ہمارے یہاں ہر وہ عمل جزوِتہذیب ہے جو ہماری شخصیت کو حسین بنائے اور ہمارے کردار کو عظیم بنائے، نیز ہماری دنیا و آخرت کو سنوارے،یہ ہماری تہذیب ہے۔علم، اخلاص، خدمت اور محبت ہماری تہذیب کے بنیادی اجزا ہیں۔یہ ہے وہ تہذیب اور اسلام کی بے مثال تعلیم جو نہ صرف انبیاء علیہم السلام کی عصمت، عزت اور مقام و مرتبہ کی حفاظت کاحکم دیتی ہے بلکہ ان کی اطاعت و اتباع اور ان سے ہر وقت محبت اور ہر لمحہ ان کی اطاعت کرنے کا درس دیتی ہے۔ اسلامی تہذیب وقتی طور پر جمود کا شکار ضرور ہے مگر یہ جمود اسلام کا مستقل مقدر نہیں۔اسلامی تہذیب کا مستقبل بھی اپنے ماضی کی طرح روشن ہے۔ان شاء اللّٰہ! بقول ا قبال رحمہ اللہ : دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی اُفق سے آفتاب اُبھرا، گیا دورِ گراں خوابی
[1] بانگِ درا از علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ : ۳۲۳، اقبال اکادمی، ۲۰۰۹ء