کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 84
واضح تقاضا ہے۔فقہاے کرام نے اس مسئلہ (غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت نہ کرنے اور مبارک باد نہ دینے) پر اجماع نقل کیا ہے۔امیر المومنین عمر بن خطاب نے شام کے عیسائیوں کو باقاعدہ پابند فرمایا تھا کہ دارالاسلام میں وہ اپنے تہواروں کو کھلے عام نہیں منائیں گے؛ اور اسی پر سب صحابہ رضی اللہ عنہم اور فقہا کا عمل رہا ہے، چنانچہ جس ناگوار چیز کو مسلمانوں کے سامنے آنے سے ہی روکا گیا ہو، مسلمان کا وہیں پہنچ جانا اور شریک ہونا کیوں کر روا ہونے لگا؟ اس کے علاوہ کئی روایات سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا یہ حکم نامہ منقول ہے:
''عجمیوں کے اُسلوب اور لہجے مت سیکھو۔اور مشرکین کے ہاں اُن کے گرجوں میں ان کی عید کے روز مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللّٰہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔''[1]
علاوہ ازیں کافروں کے تہوار میں شرکت اور مبارک باد کی ممانعت پر حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ سب متفق ہیں[2]۔فقہائے مالکیہ تو اس حد تک گئے ہیں کہ جو آدمی کافروں کے تہوار پر ایک تربوز کاٹ دے، وہ ایسا ہی ہے گویا اُس نے خنزیر ذبح کر دیا۔[3]
کافر کو اُس کے مشرکانہ تہوار پر مبارکباد دینا کیسا ہے؟ اس پر امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
''یہ ایسا ہی ہے کہ مسلمان اُسے صلیب کو سجدہ کر آنے پر مبارکباد پیش کرے! یہ چیز اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ آدمی کسی شخص کو شراب پینے یا نا حق یا حرام شرمگاہ کے ساتھ بدکاری کرنے پر مبارک باد پیش کرے''[4]
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام تنگ نظر دین ہے۔دینِ اسلام ہرگز تنگ نظری کی تعلیم نہیں دیتا بشرطیکہ حقیقی مذہبی تعلیمات کی خلاف ورزی نہ ہو۔تعلیماتِ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ انبیا و رُسُل اس کائنات میں سب سے زیادہ برگزیدہ تھے،
[1] اقتضاء الصراط المستقیم از شیخ الاسلام ابن تیمیہ : ۱؍۴۷۸
[2] البحر الرائق لابن نجیم: ۸؍ ۵۵۵؛ المدخل لابن حاج المالکی : ۲؍۴۶۔۴۸؛ مغنی المحتاج للشر بینی :۴؍۱۹۱؛ الفتاوی الفقہیہ الکبریٰ لابن حجر ہیثمی : ۴ ؍۲۳۸۔۲۳۹؛ کشف القناع للبہوتی : ۳ ؍ ۱۳۱
[3] اقتضاء الصراط المستقیم: ص ۳۵۴
[4] احکام اہل الذمہ از ابن قیم:۳؍ ۲۱۱