کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 83
رہے ہیں جس کا بدل پوری کائنات میں نہیں۔اقبال رحمہ اللہ نے اسی کیفیت کا نقشہ کھینچا تھا: کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِدارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیّارہ گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں انکو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ[1] غیرمسلموں کے تہوار منانے کی شرعی حیثیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ ہے: ''دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مَقام پر اونٹ قربان کرے گا۔تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ صحابہ نے عرض کی: نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہ ؓ نے عرض کی: نہیں۔تب آپ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو،کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا درست نہیں جو معصیت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو۔''[2] اس سے واضح ہوا کہ مسلمان کا ان مشرکانہ مراسم اور مقامات سے دور رہنا شریعت کا کتنا
[1] بانگِ درا از علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ :۲۰۷ [2] سنن ابوداؤد :۳۳۱۳