کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 80
مار کٹائی کے دس لاکھ واقعات سامنے آئے۔شراب نوشی کی بنا پر ۲۵دسمبر ۲۰۰۲ء کو آبرو ریزی اور زیادتی کے ۱۹ہزار کیس درج ہوئے۔ایک سروے کے مطابق برطانیہ کے ہر ۷ میں سے ایک نوجوان نے کرسمس پر شراب نوشی کے بعد بدکاری کا ارتکاب کیا۔ امریکہ کی حالت اس سے بھی گئی گزری ہے۔امریکہ میں کرسمس کے موقع پر ٹریفک کے قوانین کی اتنی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں کہ پورا سال نہیں ہوتیں۔۲۵دسمبر کو ہر شہری کے منہ سے شراب کی بُو آتی ہے۔شراب کے اخراجات چودہ ارب ڈالر تک پہنچ جاتے ہیں۔صرف اٹلانٹک سٹی کے جوا خانوں میں اس روز ۱۰؍ارب روپے کا جوا ہوتا ہے۔لڑائی مار کٹائی کے واقعات کی چھ لاکھ رپورٹیں درج ہوتی ہیں۔۲۵دسمبر ۲۰۰۵ء کو کرسمس کے روزکثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے حادثوں کے دوران اڑھائی ہزار امریکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔پانچ لاکھ خواتین اپنے بوائے فرینڈز اور خاوندوں سے پٹیں۔ اب تو یورپ میں بھی ایسے قوانین بن رہے ہیں جن کے ذریعے شہریوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ کرسمس کی عبادت کے لیے اپنے قریب ترین چرچ میں جائیں، شراب نوشی کے بعد اپنی گلی سے باہر نہ نکلیں۔خواتین بھی اس خراب حالت میں اپنے بواے فرینڈز اور خاوندوں سے دور رہیں۔مذکورہ بالا اعداد و شمار ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۵ء کے ہیں۔ہم مسلمان بھی اپنی عیدوں پر قانونِ قدرت کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں اور طرح طرح کی بدعتوں کے شکار ہو چکے ہیں،لیکن عیسائی دنیا اس معاملے میں مسلمانوں کے مقابلے میں بہت آگے ہے۔ اب تو عیسائیوں کے اندر بھی ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہیں جو کرسمس کو پسند نہیں کرتے۔یہ لوگ اس تہوار پر مختلف اعتراضات کرتے ہے۔مثلاً مسیح نے اپنی زندگی میں کرسمس نہیں منائی۔اس کے بعد بھی تین صدیوں تک اس تہوار کا نام و نشان نہیں تھا، اس سے کرسمس کی حقیقت مشکوک ہو جاتی ہے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کرسمس کو سپانسر کر کے اسے مذہبی تہوار کی بجائے دکانداری بنا دیا ہے۔عیسائی مذہب اور اس کے تہواروں میں درخت کی کوئی گنجائش نہیں۔انجیل میں واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے: ''کسی درخت کو کاٹ