کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 8
کرچکی ہیں۔۱۰ برس ہونے کو آئے ہیں کہ آئے روز یہ ڈرون حملے ان متاثرہ علاقوں میں پاکستان کی خودمختاری کو پامال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مطلوب شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ بے گناہ عورتیں، معصوم بچے اور عام شہری ہلاک ہوجاتے ہیں۔ان ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کے نہ جان ومال کا کوئی محافظ وداعی ہے، نہ اُن کا رنج اورغم بانٹنے والا کوئی ہے۔وہ بھی پاکستانی اور مسلمان ہیں اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پاکستانی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ڈرون حملوں کی شکل میں ان پر ہونے والا یہ ظلم، دنیا کے ہر قانون اور ملک کی نظر میں ایسا سنگین جرم ہے جس کی مذمّت اقوام متحدہ نے بھی کی ہے، پاکستان کی اسمبلیاں بھی اس کی مذمت میں کئی متفقہ قرار دادیں پاس کرچکی ہیں گویا وہ بھی ا س کے جواز کی کسی طرح تائید نہیں کرتیں۔ ۵۔پاکستان میں اسلامی نظریات اور مراکز پر حکومتی جارحیت:سابقہ پاکستانی آمر کی حکومت نے انہی پراکتفا نہ کیا بلکہ ملک میں اسلامی نظریات مثلاً حدود قوانین اور اسلامی مراکز مثلاً لال مسجد پر ظالمانہ آپریشن کیا۔ایک طرف مذاکراتی ٹیم معاملات طے کرتی رہی اور دوسری طرف نہتّی طالبات کو نشانہ بنا یا۔ظلم وبربریت کے اس اقدام نے مملکتِ پاکستان کے اَمن وامان کی صورتحال پر نہایت دوررَس اثرات مرتب کیے۔مشرف کےدور میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو متزلزل کرنے اور آزاد میڈیا کے ذریعے اباحیت کو فروغ دینے کی بھی ہر تدبیر کی گئی اور ان سالوں میں پاکستان میں اسلام کو اجنبی اور اس پر، خلوص سے عمل پیرا ہونے کو برا سمجھا جانے لگا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اسے ہر باشعور وباخبر پاکستانی بخوبی جانتا ہے۔۱۰ سالوں میں پاکستان میں بدترین دہشت گردی کا جال پھیلا دیا گیا، سیکڑوں بم دھماکوں کے بعد شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی اور امن وامان ایک خواب بن کررہ گیا۔سیکورٹی فورسز ہوں یا افواج، مساجدکے نمازی ہوں یا عوامی مقامات، کہیں بھی کسی کا جان ومال محفوظ نہ رہا۔امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ، دہشت گردی اور قتل وغارت میں فرنٹ لائن پرآگئی، گویا پاکستان عذاب الٰہی کا نقشہ پیش کرنے لگا...!!