کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 78
کرسمس سے چاراتوار پہلے کرسمس کی تیاری کے حوالے سے 'کینڈل لائٹ سروس' کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ۲۵دسمبر مسیح کا یومِ ولادت نہیں، بلکہ یہ دن دیگر اغراض ومقاصد کی بنا پر'یوم پیدائشِ مسیح' بنا دیا گیا۔قاموس الکتاب کے حوالے سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جشن زُحل رومیوں کا تہوار جو عیاشیوں کی نظر ہو چکا تھا، اس کو ایک مقدس تہوار سے بدل دیا گیا تاکہ لوگوں کا رجحان مذہب کی طرف ہو جائے مگر کس کو معلوم تھا کہ یہ مقدس تہوار جشنِ زحل سے بھی خطرناک صورت اختیارکر جائے گا۔ حضرت عیسٰی کی تاریخ پیدائش نہ تو انجیل سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی اور مستند ذریعہ سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ویسے بھی ابتدائی تین صدیوں تک میلاد مسیح کو منانا، مشرکانہ اور بت پرستانہ فعل سمجھا جاتا تھا۔یہ ایک خود ساختہ رسم تھی اور بعدازاں مختلف کلیساؤں کی طرف سے اس کی روک تھام کے لیے متعدد احکامات بھی جاری کیے گئے۔[1] کرسمس ٹری 'کرسمس ٹری' کا تصور بھی جرمنوں ہی کا پیدا کردہ ہے۔مسیحی لوگ اپنی پرانی ثقافتی روایات کے مطابق کرسمس کے دن حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ اور جبرائیل کا کردار مختلف اداکاروں کے ذریعے ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کرتے تھے۔راقم بھی اپنے زمانۂ عیسائیت میں خود کئی بار ایسے 'ٹیبلوز' میں مختلف کردار ادا کر چکا ہے،اس میں تمام واقعہ دہرایا جاتا تھا جو مریم کے ساتھ مسیح کی ولادت کے ضمن میں پیش آیا۔اس واقعے کے دوران درخت کو مریم علیہا السلام کا ساتھی بنا کر پیش کیا جاتا اور دکھایا جاتا کہ وہ اپنی اُداسی اور تنہائی کی یہ ساری مدت اس ایک درخت کے پاس بیٹھ کر گزار دیتی ہیں۔چونکہ یہ درخت بھی اسٹیج پر سجایا جاتا تھا اور ڈرامے کے اختتام پر لوگ اس درخت کی ٹہنیاں تبرک کے طور پر ساتھ لے جاتے
[1] تفصیل کے لیے دیکھیے: Collier'sانسائیکلو پیڈیا