کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 77
کے مہینے جولائی یا اگست کے کسی دن میں ہوئی تھی نہ کہ ۲۵دسمبر کو، جو کہ یہودیہ (موجودہ فلسطین) میں سخت سردی اور بارشوں کا مہینا ہوتا تھا۔
جرمن قبائل قدیم زمانہ سے اس موسم کو تعظیم اور تکریم کا موسم سمجھتے تھے۔سیکنڈ ے نیویا (ناروے، سویڈن، ڈنمارک)کے قدیم باشندوں کا عقیدہ تھا کہ تمام دیوتا ۲۵دسمبر کو زمین پر اُترتے ہیں اور ۶جنوری تک انسانوں کی تقدیر بدلنے کی تدبیر کرتے رہتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ بھی ملتا ہے کہ چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں روم شہر میں مشعلیں بنانے والے ایک صاحب نے ایک ایسی مشعل بنائی جس میں تیل ڈالنا نہیں پڑتا تھا جس کو بعد میں کینڈل یا موم بتی کا نام دیا گیا۔یہ تیل والی مشعلوں کے مقابلے میں گھنٹوں زیادہ جلتی تھی۔یہ ایک زبردست ایجاد تھی جس کے ذریعے وہ دنوں میں امیر ہو گیا، لہٰذا اب یہ شخص موم بتی کی وسیع فروخت کا خواہاں ہو ا۔اس نوجوان کے حلقہ احباب میں روم شہر کا ایک پادری بھی تھا۔ایک دن نوجوان نے اپنے پادری دوست کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو پادری صاحب نے اس کو سمجھایا کہ دنیا میں جو چیز مذہب کے ساتھ منسوب ہو جائے، اُسے دوام مل جاتا ہے۔ایک روز پادری اس نوجوان کی دکان پر آیا اور نوجوان نے پادری صاحب کے کان میں ایک سرگوشی کی تو پادری کی آنکھوں میں چمک آگئی۔اتفاق سے وہ اتوار کا دن اور ۲۵دسمبر تھا۔اس روز پادری صاحب نے 'سروس' یعنی عبادت کے بعد ایک عجیب اعلان کیا کہ آپ تمام حضرات سورج ڈوبنے کے بعد دوبارہ چرچ میں حاضر ہو جائیں، آج میں ایک ایسے خصوصی طریقے سے دعا مانگوں گا کہ مانگنے سے پہلے ہی دعا قبول ہو جائے گی، چنانچہ لوگ شام کے وقت چرچ میں جمع ہو گئے، جب خوب اندھیرا پھیل گیا تو پادری نے تمام حاضرین کے سامنے ایک ایک موم بتی جلا دی اور لوگوں سے آنکھیں بند کر کے دعا کرنے کی درخواست کی۔یہ دعا گھنٹوں جاری رہی اور ساتھ موم بتی بھی۔دعا کے بعد جب لوگوں کی واپسی شروع ہوئی تو اُن کے ہونٹوں پر اس نئے طریقے کی دعا کی مقبولیت کا چرچا تھا۔یہ ۳۳۶ عیسوی کا ۲۵دسمبرتھا۔[1]چنانچہ آج بھی
[1] کتاب : 'سازشیں بے نقاب'