کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 75
یول ڈے نیٹوئی (پیدائش کا سال)اور نوائل (پیدائشی یا یوم پیدائش)جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے[1]۔'بڑا دن' بھی کرسمس کا مروّجہ نام ہے۔یہ یومِ ولادت مسیح کے سلسلے میں منایا جاتا ہے کیونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے، اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔ نہ صرف مسیح کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علما میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔عام خیال ہے کہ سن عیسوی مسیح کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے مگر 'قاموس الکتاب 'اور دیگر مسیحی کتب کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی ولادت باسعادت۴یا ۶ق م میں ہوئی۔قاموس الکتاب میں یہ تاریخ ۴ق م دی گئی ہے جبکہ مائیکل ہارٹ ''The Hundred'' میں ۶ق م تسلیم کرتا ہے۔پیدائش کے دن کے حوالے سے بھی شدید اختلاف ہے۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسا اسے ۲۵دسمبر، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسا ۶جنوری اور ارمنی کلیسا ۱۹جنوری کو مناتا ہے۔کرسمس کے تہوار کا ۲۵ دسمبر کو ہونے کا ذکر پہلی مرتبہ شاہِ قسطنطین (جو چوتھی صدی عیسوی میں بت پرستی ترک کر کے عیسائیت میں داخل ہو گیا تھا )کے عہد میں ۳۲۵عیسوی میں ہوا۔یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اوّلین کلیسا 'بڑا دن' مناتے بھی تھے یا نہیں۔ یادرہے کہ مسیح کی صحیح تاریخ پیدائش کا کسی کو علم نہیں۔تیسری صدی عیسوی میں اسکندریہ کے کلیمنٹ نے رائے دی تھی کہ اسے ۲۰مئی کو منایا جائے۔لیکن ۲۵دسمبر کو پہلے پہل روم(اٹلی) میں بطورِ مسیحی مذہبی تہوار مقرر کیا گیا تاکہ اس وقت کے ایک غیر مسیحی تہوار، جشنِ زُحل Saturnaliaکو ( یہ رومیوں کا ایک بڑا تہوار تھا،اس روز رنگ رلیاں خوب منائی جاتی تھیں) جو سورج کے راس الجدی پرپہنچنے کے موقع پر ہوتا تھا، پسِ پشت ڈال کر اُس کی جگہ مسیح علیہ السلام کی سالگرہ منائی جائے۔[2] کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب 'لائف آف کرائسٹ' میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے یومِ ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔انجیل (لوقا۸:۲) سے صرف یہ بات معلوم ہوتی
[1] نوائے وقت: ۲۷؍دسمبر ۲۰۰۵ء [2] قاموس الکتاب :ص۱۴۷