کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 73
خلاصۂ تحقیق گزشتہ تمام تفصیل کا خلاصہ نکات وار یہ ہے کہ ۱۔حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش بالکل نامعلوم ہے۔ ۲۔یومِ پیدائش کے متعلق فقط اندازے و تخمینے لگائے جاتے ہیں،کوئی مستنددلیل نہیں۔ ۳۔حضرت عیسیٰ ۲۵؍ دسمبر کو پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ۴۔قرآن اور اناجیل میں عیسیٰ کی پیدائش کے معلوم واقعات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ کی ولادت موسم گرما میں ہوئی۔ ۵۔اس کے با وجود حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش ۲۵؍دسمبر کو مقررکیا گیا۔کیونکہ ابتدائی عیسائیت کو تحفظ دینے والے مشرک اہلِ روم اپنے سورج دیوتا کا جنم دن ۲۵؍دسمبر کو ہی منایا کرتے تھے۔ ۶۔مصر کے فرعون اپنی مشہور دیوی آئیسز(Isis) کے بیٹے ہورس (Horus) دیوتا کا جنم دن بھی ۲۵؍دسمبر کو منایا کرتے تھے۔ ۷۔عید کے طور پر ۲۵؍دسمبر کو منانے کا رواج تاریخ میں سب سے پہلے ہمیں بابل کی تہذیب سے ملتا ہے۔کیونکہ اہلِ بابل ۲۵؍دسمبر کو شہر کے بانی نمرود بادشاہ کی سالگرہ منایاکرتے تھے۔ ۸۔کسی شخصیّت کے جنم دن کو تہوار کے طور پر منانا یا خود اپنی سالگرہ منانا نمرود،فرعون اور مشرک اقوام کا طریقہ ہے۔ ۹۔بائبل کی تعلیم کے مطابق ایسے تہوار منانا جائز نہیں۔ ۱۰۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی مشابہت سے منع فرمایا۔ ۱۱۔ایسے تہوار پر مبارک باد دینا حرام ہے۔ ۱۲۔خاص مذہبی تہوار پر کسی غیر مسلم کو کوئی تحفہ دینا جائز نہیں۔ ۱۳۔عیسائیوں کی نقالی میں رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میلادمنانا بدعت بھی ہے اور غیر مسلموں کی مشابہت بھی۔