کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 72
سے کام کرتے ہیں۔عیسائیوں کے خیال میں یہ دن حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن ہے۔اس میں جتنے بھی کام کئے جاتے ہیں مثلاًآگ روشن کرنا، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلاناسب کے سب مکروہ کام ہیں۔اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا دین و عقیدہ ہے۔اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اورعیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں۔''[1] المیہ! مگر بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اکثر عوام الناس اور ان کی رہنمائی کرنے والے کچھ عاقبت نااندیش علما نہ صرف غیر مسلموں کے ایسے تہواروں میں شرکت کرتے بلکہ ان کی تعریف بھی کرتے ہیں۔اُنہیں اللّٰہ سے ڈرنا چاہیئے اور اللّٰہ کے ان دشمنوں کو خوش نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ''وہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی ختیار کرو تو وہ بھی نرم ہو جائیں۔[2]'' اور اللّٰہ کا فرمان بھی ہے:'' تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ اُن کے مذہب کی پیروی اختیار کر لو۔[3]'' اور رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا: '' تم لوگ پہلی اُمتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل میں داخل ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔''[4] ہمارے معاشرے میں رائج قبر پرستی، پیر پرستی، امام پرستی اور رنگارنگ بدعات مثلاً عرس، میلے اور عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ ان تمام باتوں کی دلیل قرآن و سنت سے نہیں ملتی اور نہ ہی صحابہ کرام و اہل بیت عظام سے ان کی کوئی دلیل ملتی ہے بلکہ یہ بدعات تو سراسریہود و نصاریٰ کی اندھا دھندنقالی کا ہی کرشمہ ہیں۔اللّٰہ سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات سے بچائے اور قرآن و سنت کی صراطِ مستقیم پر چلائے۔آمین!
[1] اقتضاء الصراط المستقیم : ۱؍۴۷۸ [2] سورۃ القلم:۹ [3] سورۃ البقرۃ: ۱۲۰ [4] صحیح بخاری: ۳۴۵۶