کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 71
''مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت کریں کیونکہ وہ برائی اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔اور جب اہلِ ایمان اہلِ کفر کے ایسے تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو کفر کے اس تہوار کو پسند کرنے والے اور اس سے متاثر ہونے والے کی طرح ہی ہیں۔اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ان اہل ایمان پر اللّٰہ کا عذاب نہ نازل ہو جائے کیونکہ جب اللّٰہ کا عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔''[1]
۴۔امام مالک کے شاگردِ رشید مشہور مالکی فقیہ عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا ان کشتیوں میں سوار ہونا جائز ہے جن میں عیسائی اپنی عیدوں کے دن سوار ہوتے ہیں۔تو آپ رحمہ اللہ نے اس وجہ سے اسے مکروہ جانا کہ کہیں ان پر اللّٰہ کا عذاب نہ اُتر آئے کیونکہ ایسے مواقع پر وہ مل کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔[2]
۵۔احناف کے مشہور فقیہ ابو حفص کبیر رحمہ اللہ نے فرمایا:اگر کوئی شخص پچاس سال اللّٰہ کی عبادت کرے پھر مشرکین کی عید آئے تو وہ اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے تو اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال ضائع ہو گئے۔[3]
۶۔نامور فقیہ امام ابو الحسن آمدی رحمہ اللہ کا بھی فتویٰ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شامل ہونا جائز نہیں۔[4]
۷۔امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:''کافروں کے خاص دینی شعار کے موقع پراُنہیں مبارک باد پیش کرنا بالاتفاق حرام ہے۔'' [5]
۸۔امام ابنِ تیمیہ نے اس مسئلہ میں فرمایا: ''موسم سرما میں دسمبر کی۲۴تاریخ کو لوگ بہت
[1] احکام اہل الذمۃ:۳؍۱۲۴۹
[2] المدخل لابن الحاج:۲؍۴۷
[3] البحرالرقائق شرح کنز الدقائق: ۸؍۵۵۵؛الدر المختار: ۶؍۷۵۴
[4] احکام اہل الذمہ ازامام ابن قیم:۳؍۱۲۴۹
[5] احکام اہل الذمہ: ۱؍ ۲۰۵