کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 7
پاکستانی مسلمانوں کی جان لے لینا، اُن کو نشانہ بنانے اور گرفتار کرنے کے لیے اُن کی جاسوسی کرنا، 'کولیشن سپورٹ فنڈ ' کے نام پر اربوں ڈالر سالانہ وصول کرکے سیکڑوں مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کردینا،کفار کو عسکری و غیر عسکری سہولیات مہیاکرنا، اپنے بحرو برّ امریکی افواج کے استعمال کے لئے دے کر 'فرنٹ لائن اسٹیٹ' کا کردار ادا کرنا وغیرہ وہ حکومتی رویے ہیں، جنہوں نے حکومت کو ایک پورا فریق بنادیا۔ ۳۔معاہدات کی خلاف ورزی اور اس کا راستہ بند کرنا: متاثرہ علاقے کے لوگوں کی مزاحمت اور یہاں سے مزاحمت کے خاتمے کے لئے حکومت پاکستان نے کئی ایک معاہدے کیے، لیکن نیک محمد اور سوات کے صوفی محمد سے لے کرآج تک کئی معاہدوں کو نظرانداز کیا گیا۔یہ مختلف معاہدے پولیٹکل ایجنٹ، ڈپٹی کمشنر،سیکرٹری داخلہ اور گورنر خیبر پختونخواہ کے ذریعے کئے جاتے رہے، لیکن ہمیشہ حکومت کی مرکزی قیادت نے ان معاہدوں کی بنا پر اپنے سیاہی اہداف حاصل کئے ہیں اور اُن کی پاسداری نہیں کی۔سوات میں نفاذِ امن کے معاہدہ میں صوفی محمد کو ایک سابقہ بیان اور لڑکی کو درّے مارنے کی جعلی وڈیو پیش کرکے، آج تک جیل میں رکھا ہوا ہے۔جہاں تک آئین کے بارے میں ان کے بیان کا تعلق ہےتو جسقم، جئے سندھ محاذ، سندھی اور بلوچی قوم پرستوں،اور بعض قبائل کے علاوہ پاکستان کی بہت سی سیاسی شخصیات مثلاً ممتاز بھٹو، رسول بخش پلیجو اورڈاکٹر قادر مگسی وغیرہ بھی اس آئین کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، لیکن میڈیا کے ذریعے ہائپ پیدا کرکے، حکومت من مانے مقاصد حاصل کرتی اور صورتحال کو بگاڑتی رہی ہے۔صورتحال یہاں تک گھمبیر ہےکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور یہ متاثرہ لوگ بھی معاہدہ کرنے پر متفق ہوگئے تو یکم نومبر۲۰۱۳ء کو عین معاہدہ ومذاکرات کے مرحلے پر امریکی ڈرون حملے سے طالبان لیڈر حکیم اللّٰہ محسود کو بلاجواز ہلاک کردیا گیا۔امریکی حکومت خود افغان طالبان سے معاہدے کرنے کے لئے تو سرتوڑ کوشش کررہی ہے لیکن پاکستان میں معاہدہ کے ہر امکان کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ۴۔ڈرون حملوں کی صورت میں درندگی: امریکی افواج خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے، نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستانی سرحدوں، حتیٰ کہ چینی سرحدوں پربھی بم باری