کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 68
میرا بیٹا پاتال میں آرام کرنے کے لیے گیا ہےاور جس طرح ایک خشک تنے سے سردیوں کے انقلابِِ شمسی (یعنی ۲۱؍دسمبر اور اسکے بعد کے کچھ ایّام) پر ایک نئی زندگی سر سبز پتوں کی صورت پھوٹتی ہے، ایسے ہی میرے بیٹے کے مردہ بدن سے اس کی پیدائش کے دن ہر سال ایک نئی زندگی جنم لے گی۔اور ہر سال اس دن کو ہم عید کے طور پر منائیں گے۔''[1] مارٹن کولنز اس سلسلے میں اپنے ریمارکس یوں دیتے ہیں: '' نمرود کی نا گہانی موت (2167 )کے بعداس کی ماں سمیرامس نے اہلِ بابل میں اس عقیدے کا پرچار کیا کہ نمرود ایک دیوتا تھا۔اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا بیٹا درخت کے تنے کی مانند ہے کہ جیسے سردیوں کے اختتام پر اس سے ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے، ایسے ہی اس کے مردہ جسم سے اس کی سالگرہ کے دن ایک نئی زندگی جنم لے گی۔اس کی سالگرہ کے دن اس کی ماں نے یہ اعلان کیا کہ نمرود ہر سر سبز درخت پر آئے گا اور وہاں تحائف چھوڑ کر جائے گا۔غالبا ً یہی کرسمس ٹری کی ابتدا بھی ہے۔اس طرح اس کی سالگرہ سردیوں کے انقلابِِ شمسی یعنی دسمبر کے آخری ایام میں ایک عید کی حیثیت سے منائی جانے لگی۔'' [2] بائبل میں ایسے تہوار نہ منانے کا حکم بائبل میں بھی مشرکین کے میلوں،عیدوں اور تہواروں میں شرکت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔فرمانِ باری تعالی ہے: ''اے اسرائیل کے گھرانے ! وہ کلام جو خداوند تم سے کرتا ہے سنو۔خداوند یوں فرماتا ہے کہ تم دیگر اقوام کی روش اختیار نہ کرو۔'' [3] نیز یہ تہوار حضرت عیسیٰ کے سچے دین میں نہ تھا بلکہ بعد میں رومی پادریوں نے اسے دین کا شعار بنایا، اس لیے یہ عیسائیت میں بدعت (Heresy) ہے۔اور بدعت سے بائبل
[1] The Tow Babylons by Alexander Hislop , p.93 [2] Forerunner Commentary by Martin G. Collins [3] یرمیاہ ۱۰؍۱،۲