کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 67
پوپ آریجن(Origen 185-253 AD)نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے :
''مقدس صحائف میں یومِ پیدائش (Birth Day) کے موقع پر کسی عظیم دعوت کا انعقاد کرنے یا اسے بحیثیتِ تہوار منانے کا کوئی ایک بھی حوالہ موجود نہیں۔یہ تو نمرود، فرعون اور ان کی طرح کے گنہگار کفّار ہیں جو اس دنیا میں اپنی پیدائش کے دن کسی تہوار یا بڑی دعوت کا انعقاد کرتے ہیں۔''[1]
انسائیکلوپیڈیا امیریکانا میں''Christmas''کے موضوع پر تحریر کردہ مضمون میں اس عقدہ کو یوں کشا کیا گیا:
''بہت سے مذہبی ماہرین کے مطابق عیسائی کلیسا کی ابتدائی صدیوں میں کرسمس نہیں منائی جاتی تھی... لوگ عیسیٰ کی پیدائش کی یاد میں چوتھی صدی عیسوی میں تہوار منانا شروع ہوئے۔پانچویں صدی عیسوی میں تو مغربی کلیسا نے اس تہوار کو اس دن منانے کا حکم دیا جس دن قدیم اہلِ روم اپنے سورج دیوتا کا جنم دن (۲۵دسمبر) منایا کرتے تھے۔جبکہ مسیح کے اصل یومِ پیدائش کا کسی کو کوئی خاص علم ہی نہ تھا۔''[2]
کرسمس کی حقیقت
پروفیسر الیگزینڈر ہزلپ کرسمس اور نمرود کے تعلق کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
''بابل، مصر، کنعان، یونان،روم اورمختلف ایشیائی ممالک کی قدیم تہذیبوں میں ہمیں ایک مشترک داستان ملتی ہے جس کی ابتدا بابلی تہذیب سے ہو ئی اور پھرمختلف تہذیبوں نے اس داستاں کو اپنا کر اپنے عقائد میں شامل کیا۔اس داستان کے مطابق شہر بابل کابانی نمرود بادشاہ جنگل میں شکار کرنے گیا اور واپس نہ آیا۔غالبا ً وہ کسی شکار کا شکار ہو گیا۔اس کی ماں جو اس کی بیوی بھی تھی، اس نے اسے بہت تلاش کیا لیکن اس کا کوئی پتا نہ چلا۔بالآخر اُس نے اپنے دل کو بہلانے کے لیے کہ
[1] Catholic Encyclopedia, Roman Caotholic Church, 1911 Ed. Natal Day
[2] Encyclopedia Ameracana, New York, 1944 Ed. (Christmas)