کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 64
حضرت عیسیٰ کے جائے پیدائش کے متعلق رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صلیت ببیت لحم حیث ولد عیسی)) [1] ''میں نے بیت اللحم میں نمازپڑھی، جہاں عیسیٰ پیدا ہوئے تھے۔'' مذکورہ بالا آیات میں محل شاہد آیت نمبر۲۵ ہے جس میں کھجور کے تنے کو ہلانے اور تروتازہ کھجوریں گرنے کا ذکر ہے۔مندرجہ بالا آیات کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام کو دردِزِہ کی تکلیف ہوئی تو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجور کے تنے کو ہلاتاکہ اُن پر تا زہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اُن کو کھائیں اور چشمے کا پانی پی کر طاقت حاصل کر سکیں۔ اب توجہ طلب بات یہ ہے کہ فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جولا ئی اور اگست میں ہی کھجوریں پکتی ہیں۔اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت جولائی یا اگست کے کسی دن ہوئی تھی۔بہر حال ۲۵؍دسمبر کی تاریخ سراسر غلط ہے۔ ٭ قطع نظراس بحث سے کہ یہ کھجوروں والا معاملہ سیدہ مریم علیہا السلام کی کرامت تھی یا نہیں،ان آیات کا ظاہری سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ وہ درخت پھل دار تھا۔علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں لکھا ہے کہ وقال بعض العلماء: کانت النخلة مثمرة، وقد أمر اللّٰہ بهزمها لیتساقط لها الرطب الذي کان موجودًا[2] ''بعض علما نےیہ کہا : وہ کھجور کا دخت پھل دار تھا، اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے سیدہ مریم علیہا السلام کو اسے ہلانے کا حکم دیا تاکہ یہ درخت اپنی تروتازہ کھجوریں سیدہ مریم کے لیے گرا دے جو کہ موجود تھیں۔'' ٭ اس سلسلے میں کسی اہل دل نے کیا خوب کہا کہ ألم تر أن اللّٰہ أوحی لمریم وهزي إلیك الجذع لیساقط الرطب ولو
[1] سنن النسائی: ۴۵۱، سندہ حسن [2] اضوا ء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن از شنقیطی: ۴؍ ۱۹۰