کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 63
اور سورج کی چلچلاتی دھوپ نے اُنہیں نڈھال کر دیا۔وہ اور اُن کے جانور پیاسے بھی تھے۔وہ ایک کھجور کے درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے رکے۔اور وہ درخت پھل سے لدا ہواتھا۔'' [1]
مندرجہ بالا تمام دلائل و قرائن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سیدنا مسیح کی ولادت انجیل کے مطابق سردیوں کے موسم کی بجائے گرمیوں میں ہوئی تھی۔
قرآن کریم اور ولادت ِ عیسیٰ علیہ السلام کا تعین
قرآنِ کریم میں حضرت عیسیٰ کی ولات کے متعلق سورہ مریم کے دوسرے رکوع میں بالتفصیل تذکرہ ہوا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَحَمَلَتهُ فَانتَبَذَت بِهِ مَكانًا قَصِيًّا () فَأَجاءَهَا المَخاضُ إِلىٰ جِذعِ النَّخلَةِ قالَت يٰلَيتَنى مِتُّ قَبلَ هٰذا وَكُنتُ نَسيًا مَنسِيًّا﴾[2]
''تو وہ اس (بچے) کے ساتھ حاملہ ہو گئیں اور اُسے لیکر ایک دُور کی جگہ چلی گئیں پھر دردِ زہ اُن کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔کہنے لگیں کہ کاش میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو گئی ہوتی۔''
اس کے بعد سیدہ مریم علیہا السلام کو بارگاہ ایزدی سے یہ فرمان صادر ہوتا ہے :
﴿فَنادىٰها مِن تَحتِها أَلّا تَحزَنى قَد جَعَلَ رَبُّكِ تَحتَكِ سَرِيًّا () وَهُزّى إِلَيكِ بِجِذعِ النَّخلَةِ تُسٰقِط عَلَيكِ رُطَبًا جَنِيًّا ()فَكُلى وَاشرَبى وَقَرّى عَينًا﴾[3]
''اس وقت اُن کے نیچے کی جانب سے فرشتے نے اُن کو آواز دی کہ غم ناک نہ ہو تمہارے ربّ نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلاؤ تم پر تازہ تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔''
[1] The Gospel of Pseudo۔Matthew ch. # 20, Ante۔Nicene Fathers, Vol. 8, 1886 ed.
[2] سورةمريم: ٢٣
[3] سورة مريم: ۲۴۔۲۶