کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 60
''یسوع سردی کے موسم میں پیدا نہیں ہوئے تھے، کیونکہ جب یسوع پیدا ہوئے تو اس علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہتے اور اپنے گلہ بانی کی حفاظت کرتے تھے۔دسمبر کے مہینے میں یہودیہ کے علاقے میں ایسا نہیں ہو سکتا۔چرواہے ہمیشہ اپنے ریوڑ کو پہاڑی علاقوں اور کھیتوں میں لے جاتے اور۱۵ اکتوبر سے پہلے پہلے اُنہیں ان کے حفاظتی باڑوں میں بند کر دیتے تھے تاکہ اُنہیں سردی اور برسات کے موسم سے بچایا جا سکے جو کہ۲۵؍اکتوبر کے بعد شروع ہو جاتا تھا۔یاد رکھیے کہ بائبل خود اس کا ثبوت دیتی ہے کہ سردی برسات کا موسم تھا جو چرواہوں کو کھلے کھیتوں میں رات بسر کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔''[1]
آدم کلارک (Adam Clarke1760–1832) لکھتے ہیں کہ
''یہ یہودیوں کا قدیم رواج تھا کہ عید فصیح کے مہینے (نیساں یعنی اپریل)میں اپنی بھیڑ بکریوں کو باہر کھیتوں اور میدانوںمیں بھیج دیتے اور برسات کے شروع میں ہی اُنہیں گھر واپس لے آتے۔''[2]
پروفیسر اے ٹی رابرٹسن ولادت ِمسیح کے تعین کے سلسلے میں بیان کرتے ہیں:
'' اگر مسیح کی تبلیغ تب شروع ہوئی جب آپ تیس سال کی عمر کے تھے اور ساڑھے تین سال میں عید فصیح کے موقع پر آپ کی وفات پر اختتام پذیر ہوئی تو محتاط طریقے سے ماضی میں واپس لوٹتے ہوئے ۲۵؍دسمبر کی بجائے ہم ستمبر یا اکتوبر کے مہینوں میں پہنچتے ہیں۔''[3]
انجیل لوقامیں سیدنامسیح علیہ السلام کی ولادت کو قیصر آگسٹس کے عہدِ حکومت میں ہونیوالی مردم شماری سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔انجیل لوقا کے دوسرے باب کا آغاز یوں ہوتا ہے:
''ان دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر آگسٹس کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری
[1] The Plain Truth about Christmas by Pr. H W Armstrong, p. 03, USA 1952 Ed.
[2] Commentary on Gospel of Luke by Adam Clark, 5/370, New York Ed.
[3] A Harmony of the Gospels by Pr. A. T Robertson p.267, New Yark ed. 1992