کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 6
۱۔امن وامان کا بلاجواز خاتمہ: پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقہ جات کے لوگ پرامن طور پر پچاس سال سے پاکستان کے ساتھ رہ رہے تھے، بالخصوص قبائلی علاقہ جات تو ایک معاہدہ کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ منسلک تھے اور وہاں پاکستانی حکومت کی رِٹ اور کنٹرول، دیگر پاکستانی صوبوں کی طرح قائم نہیں ۲[1]تھا۔اسی اثنا میں امریکہ نے نیوورلڈ آرڈر، سبز خطرہ اور تہذیبوں کے تصادم کے اپنے سیاسی نظریات واَہداف کے زیر اثر عالم اسلام کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔پاکستان کی ایٹمی قوت اور افغانستان میں ایک پرامن مسلم ریاست کے آغاز کے دنوں میں ہی نائن الیون کے حادثے کے بعد، پاکستان کے آمر حکمران نے ایک فون کال پر امریکہ کی تائید وحمایت کا سلسلہ شروع کیا۔جس طرح امریکہ نے بلاجوازایک مسلم ریاست پر حملہ شروع کردیا، اسی طرح پاکستان کی سرزمین، نیٹو سپلائی، اطلاعات اور خبر رسانی کے ذریعے امریکہ کی حمایت میں بطورِ 'فرنٹ لائن سٹیٹ' استعمال ہونا شروع ہوئی۔افغانستان سے نسل و ایمان کے رشتے میں بندھے قبائلی لوگ بھی اس امریکی ظلم کے خلاف مجتمع ہوگئے۔یہاں سے مسئلہ کا آغاز ہوا جبکہ اس سے پہلے یہ لوگ پراَمن تھے۔اُن کے امن وامان اور ان سے منسلک علاقوں کے مسلمانوں کو 'تحکم پر مبنی عالمی جارحیت ' اور پھر اس وقت کی 'پاکستانی حکومت کی بلاجواز تائید'نے خراب کیا۔
۲۔پاکستانیوں کو امریکی عقوبت خانوں میں بھیجنے میں مدد :قبائلی علاقہ جات میں پھیلنے والی اس صورتحال میں پاکستانی حکومت نے کئی پاکستانیوں کو امریکی عقوبت خانوں میں بھیجا اور اُن کے بدلے امریکی ڈالر وصول کیے، جس کی تفصیلات پرویز مشرف نے اپنی کتاب 'ان دی لائن آف فائر' میں بیان کی ہیں۔نائن الیون کے بعد کے سالوں میں پاکستانی حکومت اپنی ریاستی ذمہ داری سے برابر انحراف کرتے ہوئے، امریکہ کی ہرطرح مدد کرتی رہی۔
[1] اٹا اور پاٹا کے قبائلی علاقوں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی نوعیت مختلف ہے اور کسی صوبے سے منسلک ہونے کی بجائے، وہاں قومی اسمبلی کے ممبران علیحدہ منتخب ہوتے ہیں۔'پولیٹیکل ایجنٹ' کے ذریعے حکومت پاکستان وہاں اثرانداز ہوتی ہے۔اس سے ملتی جلتی صورتحال سوات کے علاقوں کی ہے، جو سابقہ ریاست سوات سے ایک معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کا مشروط حصہ بنے تھے۔اس لئے دیگر پاکستانی شہروں کی طرح وہاں پاکستانی حکومت کی رٹ کا معاملہ بھی قدرے مختلف ہے۔