کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 54
مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہواکہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاتاکیدی حکم صادر فرما دیااور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا،البتہ اس کے استحبا ب کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا۔[1]
معلوم ہواکہ عاشورا کے روزہ کی اصل وجہ موسیٰ کی فتح نہیں تھی،البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزہ کی فضیلت میں یہ بات بھی شامل کرلی تھی۔
رابعاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے مشورے پریہ تعلیم بھی دی کہ یوم عاشورا کے ساتھ ساتھ ایک دن کاروزہ اوررکھاجائے تاکہ یہود کی مشابہت نہ ہو۔[2]
غور کیجیے کہ جب اس حدیث میں مذکوراصل سنت ایک دن کی نہیں ہے تواس حدیث سے ایک روزہ عید میلاد کاثبوت کہاں سے نکل سکتاہے جس کااس حدیث سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔
خامساً:دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکور ہ حدیث میں جواصل تعلیم ہے وہ ہے عاشورا کے دن روزہ رکھنا،لیکن افسوس ہے کہ میلاد منانے والوں نے بڑی بے دردی سے اس سنت کاگلاگھونٹ دیاہے، چنانچہ جب محرم میں عاشورا کایہ دن آتاہے تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھنے کے بجائے کھانے پینے کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو پکڑپکڑ کرشربت پلاتے ہیں اور اس دن اُنہیں یہ حدیث یاد نہیں آتی،بلکہ یاددلانے پربھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے،لیکن حیرت ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں یہی حدیث اُن کی نظر میں بہت اہم ہوجاتی ہے،حالانکہ اس مہینے سے اس حدیث کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے!سوال یہ ہے کہ جن کی نظرمیں مذکورہ حدیث کی اصل تعلیم قابل عمل نہیں ہے، وہ اسی حدیث سے دیگر چیزیں ثابت کرنے کی جرات کیسے کرتے ہیں۔
سادساً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہد نبوی،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے اَدوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں 'عیدمیلاد'کی دلیل نہیں ہے۔
[1] صحيح بخاری:۲۰۰۲ ؛۲۰۰۴
[2] صحیح مسلم:۱۳۳۴