کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 53
سابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہدِ نبوی،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں'عیدمیلاد'کی دلیل نہیں ہے۔
غلط فہمی نمبر۵
کہاجاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشورا کاروزہ رکھتے تھے اور اس کاحکم بھی فرماتے تھے، کیونکہ اس دن اللّٰہ تعالیٰ نے حضر ت موسیٰ اور ان کی قوم کوفرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی اور ہمیں بالاولیٰ چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بابرکت دن کاروزہ رکھیں۔
وضاحت
اوّلاً: اس حدیث سے بھی عید میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ کی فتح کے دن روزہ رکھاہے،عید نہیں منائی ہے۔کیونکہ اگر عید مناتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ہرگز ہرگزروزہ نہ رکھتے، اس لیے کہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے[1]۔غور کیجیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم توروزہ رکھیں اورہم عیدمنائیں۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں تواور کیاہے ؟
ثانیاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے روزہ کی فضیلت میں موسیٰ کی فتح کاحوالہ دیاہے، نہ کہ موسیٰ کی پیدائش کا۔اب یوم فتح کایوم پیدائش سے کیاتعلق؟غور کیجیے کہ جس طرح فرعون سے نجات،موسیٰ کی فتح ہے،اسی طرح فتح مکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فتح ہے،لیکن اس مماثلت کے باوجود بھی فتح مکہ کے د ن ایساکوئی اہتمام جائز نہیں ہے،توپھریوم پیدائش جس کااس حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے،اس کاجواز اس حدیث سے کیونکر نکل سکتاہے ؟
ثالثا ً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشورا کاروزہ رکھنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ اس دن موسیٰ کی فتح ہوئی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شروع ہی سے عاشورا کاروزہ رکھتے چلے آرہے تھے،البتہ جب
[1] صحیح بخاری:۱۹۹۰