کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 52
ولادت ۹یا۱۲ربیع الاول کوہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کورسالت۲۱؍رمضان کوملی، لہٰذا اگر پیدائش کی تاریخ کو'عید میلاد' منانا چاہیے تورسالت کی تاریخ کو'عید رسالت' بھی مناناچاہیے بلکہ اس پرتوزیادہ زوردیناچاہیے، کیونکہ رسالت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کاسبب ہے، نیز اس کااقرار ہمارے کلمہ کاایک حصہ بھی ہے ! اوراگر 'عیدِ رسالت 'منانادرست نہیں تو 'عید میلاد' منانابھی غیردرست ہے۔
رابعاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف پیرہی کاروزہ علیحدہ طورپرنہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جمعرات کابھی روزہ رکھتے تھے،لہٰذا سنت کے آدھے حصّے کواہم سمجھنااور دوسرے آدھے کوفراموش کردیناسنّتِ رسول کو بدلنا ہے اوریہ ناجائزہے۔
خامساً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی یہ وجہ بھی بتلائی ہے کہ اسی دن بندوں کے اعمال ربِّ جلیل کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔[1]
ظاہرہے کہ یہ خصوصیت پیرکے دن کوحاصل ہے نہ کہ۱۲ربیع الاول کی تاریخ کو،کیونکہ یہ تاریخ تو ہرسال پیرکے علاوہ دوسرے دنوں میں پڑتی رہتی ہے بلکہ بسااوقات یہ تاریخ جمعہ کوبھی آجاتی ہے،اب جس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیرکاروزہ رکھتے تھے (یعنی اعمال کابارگاہِ الٰہی میں پیش ہونا) یہ وجہ جمعہ کے دن ہرگز نہیں پائی جاتی نیزجمعہ کے دن خصوصی روزہ رکھنابھی حرام ہے۔اس سے واضح ہوگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھنے میں پیر کے دن کااہتمام کرتے تھے نہ کہ کسی تاریخ کا،خواہ اس میں کوئی بھی دن آئے، پس دن کوچھوڑکرتاریخ کااہتمام کرناسنّتِ رسول کے سراسرخلاف ہے۔
سادساً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن جوعمل کیاہے، وہ ہے:''روزہ رکھنا''لیکن عید میلاد میں اس کے بالکل خلاف عمل ہوتاہے۔میلاد منانے والے نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھتے بلکہ اس دن وہ کھانے کاجو اہتمام کرتے ہیں، ایسا شایدہی کسی اوردن ہو۔اب سوچیے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت ہے۔
[1] جامع ترمذی:۷۴۷