کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 51
رابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہدِ نبوی،عہدِ صحابہ اور اس کے بعدکے اَدوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں 'عیدِمیلاد'کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
غلط فہمی نمبر ۴
کہاجاتاہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اسی دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھے رسالت ملی ہے۔
وضاحت
اوّلاً: اس حدیث سے عیدِ میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھاہے اوراگریہ عید کادن ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگزہرگزروزہ نہ رکھتے،کیونکہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے۔[1]
معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھاہے،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کادن 'عیدمیلاد' یاکسی بھی طرح کی عیدکادن نہیں ہوسکتا۔
ثانیاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کی تاریخ(۹یا۱۲ربیع الاول)کونہیں بلکہ ولادت کے دن (پیر) کوروزہ رکھاہے،خواہ اس دن کوئی بھی تاریخ ہویایہ دن کسی بھی ہفتہ یاکسی بھی مہینہ میں ہو لہٰذا جوشخص پورے سال کوچھوڑکرصرف ایک مہینہ اور اس میں بھی صرف ایک ہی ہفتے اور اس میں بھی صرف ایک ہی دن کواہمیت دیتاہے توگویاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اصلاح کررہاہے اوریہ بہت بڑی جسارت ہے۔
ثالثاً:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں پیرکے دن روزہ رکھنے کے دو سبب بتلاے ہیں،ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن پیداہوئے اوردوسرا یہ کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کورسالت ملی،یہ دونوں چیزیں ایک ہی دن واقع ہوئی ہیں،لیکن دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
[1] صحیح بخاری: ۱۹۹۰