کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 5
قرآن بأي ذنب قُتلت کا مصداق ہیں۔
اسلام اور عدل وانصاف کی رو سے جو جرائم، کسی اور جرم یا مسئلہ کے نتیجے میں واقع ہوتے ہیں، اُنہیں مستقل طور پر دیکھنے کی بجائے، سبب بننے والے جرم کی بنا پر ہی دیکھا جاتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے جرم کے بعدجوابی جرم جائز ہوکر قانون کو ہاتھ میں لینا درست ہوجاتا ہے بلکہ جوابی جرم کی حیثیت اور نوعیت کا صحیح تعین پہلے کے تناظر میں کیا جاتا ہے اور اسی کی روشنی میں عدل وانصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔جیسے ایک مسلمان پر کوئی حملہ آور ہو، تو اپنے دفاع میں مظلوم کچھ بھی کرسکتا ہے،دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ چبایا تو دوسرے نے دفاع میں زور سے ہاتھ کھینچا جس کے نتیجے میں ظالم کے دانت اُکھڑگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضِمُهَا كَمَا يَقْضِمُ الْفَحْلُ)) [1]
''تووہ کیا اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا تاکہ تو اُس کو بیل کی طرح چباتا رہتا؟''
اگر کوئی چور کسی کے گھر میں گھس آئے تو دفاع کی بعض صورتوں میں چور قتل بھی ہوسکتا ہے، اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ قاتل کا مقصد چوری سے بچاؤ تھا یا اس نے اضافی اقدام کیا ہے۔اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کی عزت وغیرت کو داغدار کرے تو جواباً اُس کو اس جرم سے روکنے کے لیے ہراقدام کیا جاسکتا ہے، تاہم وقوعہ کے بعد قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں اور جو قانون کو ہاتھ میں لے گا تو سابقہ مظلوم کے اس جرم کو پہلے ظالم کے تناظر میں ہی دیکھا جائے گا۔ایسے ہی توہین رسالت کے جرم میں مجرم کو جارحیت کا نشانہ بنانے والا قانون کو ہاتھ میں لینے کا مجرم تو ہے لیکن اس کی سزا، پہلے شخص کے جرم کے تناظر میں ہی ہوگی اور اگر جرم ثابت ہوگیا تو اسے عدالت بری بھی کرسکتی ہے، جیسا کہ اس پر کئی احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ہیں۔پاکستان میں حالیہ بم دھماکے،دہشت گردی اور معاہدات ومذاکرات بھی اکیلا مسئلہ نہیں بلکہ بہت سے سابقہ مسائل کے نتیجے میں پیدا ہورہا ہے۔چونکہ طالبان اس وقت بزبانِ حکومت مذاکرات کے لیے آمادہ نہیں ہورہے،اس لیے ہمیں اُن کے موقف کو سمجھنا چاہیے۔موجودہ الم ناک صورت حال کا پس منظر یہ ہے کہ
[1] صحیح بخاری:۲۹۷۳،۴۴۱۷،۶۸۹۳؛ مسلم :۱۶۷۴،مسند احمد: ۱۷۹۴۹