کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 41
میں سے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ڈھونگ رچایا۔
مسلمانوں میں اس بدعت کارواج
فاطمی دور کے مسلمانوں نے یہودیوں کی ایجادکردہ بدعت کوقبول نہیں کیااور یہ بدعت صرف فاطمی خلفا ہی تک محدود رہی،لیکن تقریباًدوسوسال کے بعدعمربن محمد نام کاایک ملّااورمجہول الحال شخص ظاہر ہوااور اُس نے اس یہودی بدعت کی تجدیدکی،اورابوسعید الملک المعظم مظفرالدین بن زین الدین کوکبوری نامی بادشاہ جوایک فضول خرچ اوربداخلاق بادشاہ تھا، لہوولعب، اور گانے باجے کارسیا تھا،بلکہ خودبھی ناچتا تھا۔[1]
اس بدخلق بادشاہ نے اس بدعت کومسلمانوں میں رائج کیا۔اس کے بعد ابو الخطاب بن دحیہ نامی ایک کذاب اور بددماغ شخص نے بادشاہ کوخوش کرنے کے لیے اس موضوع پرایک کتاب لکھ ڈالی۔پوری دنیامیں اس موضوع پریہ پہلی کتاب ہے جسے اس کذاب نے تالیف کیا، اس مؤلف کو تمام ائمہ نے متفق ہوکر ' کذاب' قرار دیا ہے۔ابن نجار کہتے ہیں:
رأیت الناس مجتمعین علىٰ کذبه ووضعه وادعائه لسمع ما لم یسمعه ولقاء من لم یلقه[2]
''تمام لوگوں کااس بات پراتفاق ہے کہ ابن دحیۃ جھوٹااور حدیثیں گھڑنے والاہے اوریہ ایسے شخص سے سننے کادعوی کرتاہے جس سے ہرگز نہیں سنا اور ایسے شخص سے ملاقات کادعوی کرتاہے جن سے وہ ہرگز نہیں ملا۔''
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے محدثین کافیصلہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کثیرالوقیعة في الأئمة وفي السلف من العلماء، خبیث اللسان أحمق شدید الکبر[3]
''ابن دحیہ ائمہ اورعلماےسلف کی شان میں بہت زیادہ گستاخی کرنے والا، بدزبان، احمق اوربڑامتکبر تھا۔''
[1] تاریخ مرآۃ الزمان ؛ وفیات الاعیان بحوالہ تاریخ میلاد:ص۲۵،۲۶
[2] لسان المیزان: ۴؍۲۹۵
[3] لسان المیزان: ۴؍۲۹۶