کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 39
کاپردہ چاک کردیااور صاف اعلان کردیا کہ یہ لوگ فاطمی النسل ہرگز نہیں ہیں۔چنانچہ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں: وأهل العلم بالأنساب من المحققین ینکرون دعواه في النسب[1] ''ماہر انساب محقق علما نے ان کے فاطمی النسل ہونے کے دعوی کی تردید کی ہے۔'' بلکہ ۴۰۲ھ میں تو اہل سنّت کے اکابرکا ایک اجلاس ہواجس میں چوٹی کے محدثین،فقہا، قاضیوں اور دیگر بزرگان نے شرکت کی اور سب نے متفقہ طور پریہ فیصلہ دیا کہ خود کوفاطمی النسل ظاہر کرنے والے خلفا جھوٹے اورمکار ہیں، اہل بیت سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے، پھرعلما کے اس متفقہ فیصلہ کوتحریری شکل میں لکھاگیااورتمام لوگوں نے اس پردستخط [2]کیے۔علما کی اس متفقہ تحریر میں فاطمیوں کی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی: هٰذا لحاکم بمصر۔هو وسلفه۔کفار فساق فجار، ملحدون زنادقة، معطلون، وللإسلام جاحدون، ولمذهب المجوسیة والثنویة معتقدون، قد عطلوا الحدود، وأباحو الفروج، وأحلوا الخمر، وسفکوا الدماء، وسبواالأنبیاء، ولعنوا السلف، وادعوا الربوبیة وکتب في سنة اثنتین وأربع مائة للهجرة، وقد کتب خطه في المحضر خلق کثیر[3] ''مصر کایہ بادشاہ حاکم اوراس کے تمام سابقہ سربراہان، کافر،فاجر،فاسق،ملحد، زندیق،فرقہ معطلہ سے تعلق رکھنے والے، اسلام کے منکر اورمذہبِ مجوسیت اورثنویت کے معتقد تھے۔ان تمام لوگو ں نے حدودِ شرعیہ کوبے کار اور حرام کاریوں کومباح کردیاتھا۔مسلمانوں کاخون بے دردی سے بہایا،انبیاے کرام کوگالیاں دیں،اسلاف پرلعنتیں بھیجیں،خدائی کے دعوے کیے۔یہ ساری باتیں ۴۰۲ھ میں ہرطبقہ کے بے شمارآدمیوں کی موجودگی میں لکھی گئی ہیں اور بہت سے لوگو ں نے اس پردستخط کیے ہیں۔''
[1] وفیات الاعیان: ۳؍۱۱۷، ۱۱۸ [2] البدایہ والنہایہ: ۱۱؍۳۶۰،۳۶۱، اور اس کااردوترجمہ تاریخ ابن کثیر: ۱۱؍۷۷۹،۷۸۰ [3] البدایہ والنہایہ: ۱۱؍۳۶۱، اور اس کااُردوترجمہ تاریخ ابن کثیر: ۱۱؍۷۷۹،۷۸۰مذکورہ ترجمہ اسی کتاب کاہے۔