کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 38
رَبِیْعِ الأوَّلِ وَکَانَ عَادَتهُمْ فِیهِ أنْ یَّعمَلَ فِي دَارِ الْفِطْرةِ عِشرُونَ قِنطَارًا مِنَ السُّکَّرِ الفَائِقِ حلْویٰ مِنْ طَرَائِفِ الأصْنَافِ، وَتَعبّی فِي ثَلاثَ مِائَة صیْنِیة نُحَاسٍ. فَإذَا کَانَ لَیلَةُ ذٰلِكَ الموْلِد، تَفَرَّقَ فِي أرْبَابِ الرُّسُوْمِ: کَقَاضِی الْقُضَاةِ، وَدَاعِي الدُّعَاةِ، وَقُرّاء الْحضرَةِ، وَالخُطبَاء، وَالمتصَدّرِینْ بِالجَوامِعِ القَاهِرَةِ وَمِصرَ، وَقَومة المُشَاهِدِ وَغَیْرهم مِمَّن لَه اسْم ثَابِت بِالدِّیوَانِ[1] ''تیسرا جلوس ربیع الاوّل کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکالا جاتا تھا۔اس جلوس میں ان کا طریقہ یہ تھا کہ 'دار الفطرہ' میں۲۰قنطار عمدہ شکر سے مختلف قسم کا حلوہ تیار کیا جاتااور پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور جب میلاد کی رات ہوتی تو اس حلوہ کو مختلف ذمہ داران مثلاًقاضی القُضاۃ،داعی الدُعاۃ،قرا، واعظین،قاہر ہ اور مصرکی جامع مساجد کے صدور،مزاروں کے مجاور ونگران اور دیگر ایسے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا جن کا نام رجسٹرڈ ہوتا۔'' مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ''اسلام میں میلاد کی مجلسو ں کارواج غالباًچوتھی صدی سے ہوا۔''[2] مذکورہ حوالوں سے معلوم ہواکہ 'عید میلاد' فاطمی دور( ۳۶۲ھ۔۵۶۷ھ ) میں ایجاد ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے فاطمی خلفا ہی تھے۔[3] فاطمی خلفا کی حقیقت اب آیے دیکھتے ہیں کہ اس بدعت کوایجاد کرنے والے فاطمی خلفا حقیقت میں کون تھے ؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فاطمی خلفا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ کی نسل سے ہرگز نہیں تھے،بلکہ یہ لوگ یہودیوں اورمجوسیوں کی اولاد تھے اور اسلام کے کٹر دشمن تھے،اُنہوں نے اسلام کومٹانے کے لیے اسلام کالبادہ اوڑھ لیااور سراسر جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کوفاطمی النسل ظاہرکیا،لیکن علماے وقت نے اُن کے اس جھوٹ
[1] صبح الأعشی : ۳؍ ۵۷۶ [2] سیرۃ النبی : ۳ ؍۶۶۴ [3] تفصیل کے لئے دیکھیے :البدع الحولیہ :ص۱۳۷تا۱۵۱