کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 36
کا طوق قائم اورمحفوظ رہتا ہے۔ علماے احناف سے بھی چند سوال علماے احناف بھی اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا بے غیرتی اور لعنت الٰہی والا راستہ پسندیدہ ہےجو تقلیدی جمود کا راستہ بھی ہے اور جس میں قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ سے گریز کیے بغیر آدمی نہیں چل سکتا؟ یہ بھی وضاحت فرمائی جائے کہ اسلام بے غیرتی والا دین ہے یا غیرت والا؟ اسلام نے کسی بھی مرحلے میں بے غیرتی کی تعلیم دی ہے؟ نیز کیا اسلام میں ایک شخص کے جرم کی سزا کسی دوسرے شخص کو دی جاسکتی ہے؟ تیسری طلاق دینے کا جرم تو مرد (خاوند) کرتا ہے لیکن آپ حضرات اس کی سزا عورت (بیوی) کو دیتے ہیں کہ ایک دو راتوں کے لیے اسے کرائے کے سانڈ کےحوالے کردیتے ہیں۔کیا اسلام میں اس بے انصافی کی اجازت ہے؟ اور کیا یہ قرآن کی آیت ﴿وَلا تَزِرُ‌ وازِرَ‌ةٌ وِزرَ‌ أُخر‌ىٰ﴾[1] کے خلاف نہیں ہے؟ او رکیا یہ فتواے حلالہ خلافِ عقل بھی نہیں ہے؟ تقاضاے عقل تو یہ ہے کہ جرم کی سزا مجرم کو دی جائے، اور آپ حضرات اس کی سزا اس کو دیتے ہیں جو سراسر بے قصور ہے۔البتہ شوہر کو ایک سزا یہ ضرور ملتی ہے بشرطیکہ وہ غیرت مند ہو کہ اس کی چند راتیں اس کرب میں گزرتی ہیں کہ اس کی بیوی کو کب کرائے کے سانڈ سے آزادی ملتی ہے اور وہ 'باعزت' اس کے پاس واپس آتی ہے؟ (باقی)
[1] سورۃ الاسراء : ۱۵