کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 35
قرآن'کے نام سے ایک مختصر تفسیر لکھی ہے۔موصوف اس میں ﴿الطَّلٰقُ مَرَّ‌تانِ...الآیة﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''اس آیت نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ اگر طلاق دینی ہی پڑ جائے تو زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دینی چاہئیں، کیونکہ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلقات بحال ہونے کا امکان رہتا ہے۔چنانچہ عدت کے اندر شوہر کو طلاق سے رجوع کرنے کا حق رہتا ہے اور عدت کے بعد دونوں کی باہمی رضا مندی سے نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ ہو سکتا ہے۔لیکن جیسا کہ اگلی آیات میں فرمایا گیا ہے، تین طلاقوں کے بعد دونوں راستے بند ہو جاتے ہیں اور تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا۔''[1] اب اس آیت کے عموم سے اگر بہ نیتِ تحلیل نکاح کا جواز نکلتا ہے،جیسا کہ اُنہوں نے اپنے تدریسی افادات 'درسِ ترمذی' میں یہ استدلال پیش کرکے اس سے یہ جواز ثابت کیا ہے تو پھر 'آسان ترجمۂ قرآن' میں یہ کہنا کہ ''تینوں طلاقوں کے بعد تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا'' کس طرح درست ہے؟ اگر قرآنِ کریم کی آیت کی وہ تفسیر صحیح ہے جو اُنہوں نے اپنی تفسیر میں کی ہے تو 'درسِ ترمذی' میں بیان کردہ استدلال اور اس سے ایک تیسرا راستہ نکالنا غلط ہے اور اگر 'درس ترمذی' والی بات صحیح ہے تو پھر تفسیر والی بات غلط ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب سے سوال اس کی وضاحت وہ خود ہی فرمائیں گے کہ ان میں سے کون سی بات درست اور کون سا استدلال صحیح ہے؟ قرآن کریم کی بیان کردہ وضاحت، جس کی صحیح تفسیر کرنے کی توفیق اللّٰہ نے آپ کو دی یا 'درسِ ترمذی' کا وہ استدلال جو آپ نے خانہ ساز اُصول کی آڑ لے کر تقلیدی جمود میں پیش کیا؟ اور جس سے تین طلاقوں کے بعد بھی ایک نہایت آسان راستہ تعلقات کی بحالی کا کھل جاتا ہے جو قرآنِ کریم کی رُو سے نہیں کھلتا۔اس نہایت آسان راستے میں البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان کو بے غیرت اور لعنتِ الٰہی کا مورد بننا پڑتا ہے۔لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ تقلید
[1] آسان ترجمہ قرآن:ص۱۱۳، طبع جدید، اکتوبر ۲۰۱۳ء