کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 33
دے دی ہےتو کوئی فکر والی بات نہیں ہے، ایک دو راتوں کے لئےکسی سے عارضی نکاح کردیاجائے، پھر اس سےطلاق لے کر (عدت گزارنے کے بعد) دونوں میاں بیوی دوبارہ نکاح کرلیں۔
یعنی اللّٰہ تعالیٰ تو تیسری طلاق دینے والے کو ایک مخصوص سزا دےکرطلاق دینے کی حوصلہ شکنی کرناچاہتا ہے تاکہ گھر برباد نہ ہوں او ربچے والدین کی شفقت او رنگرانی سے محروم نہ ہوں لیکن حلالۂ ملعونہ کو حلال ثابت کرنے والے یا بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ، قرآن کوبدلنے (اللّٰہ کی منشا کو ختم کرنے والے) فقیہانِ حرم طلاق کی حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں اور وہ بھی کس وجہ سے؟ کیا ان کےپاس اپنے اس موقف کی کوئی نقلی دلیل ہے؟ نہیں، یقیناً نہیں۔کوئی عقلی دلیل ہے؟ نہیں وہ بھی یقیناً نہیں ہے۔سوائے اس تقلیدی جمود کے، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جو اہل تقلید کا ہر دور میں شعار رہا ہے اور علم و تحقیق کے اس دور میں بھی وہ اپنی اسی روش پر مصر ہیں۔
اور دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے مقابلے میں اس تقلیدی جمود کو یہ علماے مقلدین خود بھی یکسر ناجائز، حرام اور کفر کے قریب طرزِ عمل قرار دیتے ہیں، جس کو ہماری اس بات میں شبہ ہو، وہ ' تذکرۃ الرشید' میں مولانا اشرف علی تھانوی کاوہ مکتوب پڑھ لیں جو مقلدین کے اسی طرزِ عمل کی بابت اُنہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی کو تحریرکیا تھا، اور ان کے 'فتاویٰ امدادیہ' میں بھی اس کی صداے بازگشت سنی جاسکتی ہے۔اسی قسم کی رائے کا اظہار مولانامحمود الحسن مرحوم نے'ایضاح الادلۃ' میں کیا ہے اور خود مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی تالیف 'تقلید کی شرعی حیثیت' میں بھی کیا ہے۔شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی متعدد کتابوں حجة اللّٰہ البالغة، عقد الجید، الإنصاف اور التفهیمات وغیرہا میں اس طرزِ عمل کاشکوہ او راپنے دُکھ کا اظہار کیا ہے۔طوالت سے بچنے کے لئے ہم نے صرف حوالوں پر اکتفا کیا ہے۔تاہم یہاں شاہ ولی اللّٰہ رحمہ اللہ کا صرف ایک اقتباس پیش کرکے ہم آگے چلتے ہیں کیونکہ یہ بات تو درمیان میں ضمناً نوکِ قلم پر آگئی۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:
''اگر تم اس اُمت میں یہود کا نمونہ دیکھنا چاہو تو ان علماےسوء کو دیکھ لو جو دنیا کے طالب اوراپنے اسلاف کی تقلید کے خوگر اور کتاب و سنت سے روگردانی کرنےوالے