کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 32
مولانا تھانوی نے 'بہشتی زیور' میں بھی اس مسئلے کو بیان کیا ہے،لیکن اس میں اپنے تقلیدی جمود کو نہیں چھوڑا اورحلالے والے نکاح کو حرام اور باعثِ لعنت قراردینے کے باوجود نکاح کاجواز تسلیم کیا ہے۔إنا للّٰه وإنا إليه راجعون...چنانچہ لکھتے ہیں: ''اگر دوسرےمرد سے اس شرط پر نکاح ہوا کہ صحبت کرکے عورت کو چھوڑ دے گا تو اس سےاقرار لینے کا کچھ اعتبار نہیں، اس کو اختیار ہے چھوڑے یانہ چھوڑے او رجب جی چاہے چھوڑے او ریہ اقرار کرکےنکاح کرنا بہت گناہ اور حرام ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے لیکن نکاح ہوجاتاہے۔''[1] مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد محترم مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں : ''یعنی اگر اس شخص نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی (جو شرعاً پسندیدہ نہ تھی) تو اب نکاح کا معاملہ بالکلیہ ختم ہوگیا، اس کو رجعت کرنے کاکوئی اختیار نہ رہا۔اور چونکہ اس نے شرعی حدود سے تجاوز کیا کہ بلاوجہ تیسری طلاق دے دی تو اس کی سزا یہ ہے کہ اب اگر یہ دونوں راضی ہوکر پھر آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو وہ بھی نہیں کرسکتے، اب ان کے آپس میں دوبارہ نکاح کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ عورت (عدتِ طلاق پوری کرکے) کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور حقوقِ زوجیت اداکرکے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے، پھر اگر اتفاق سے وہ دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے (یا مرجائے) تو اس کی عدت پوری کرنے کےبعد پہلے شوہر سےنکاح ہوسکتاہے۔آیت کے آخری جملے ﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيهِما أَن يَتَر‌اجَعا إِ﴾ کا یہی مطلب ہے۔''[2] یعنی والد مرحوم نے اللّٰہ کی منشا یہ سمجھی کہ تیسری طلاق دینے والے کی سزا یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بتلائےہوئے طریق حلالہ کےبغیر اب یہ دونوں میاں بیوی باہمی رضا مندی کے باوجود بھی دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے۔لیکن صاحبزادۂ گرامی قدر فرماتے ہیں کہ تیسری طلاق بھی
[1] بہشتی زیور:حصہ چہارم، ص۲۳۹، طبع مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی [2] تفسیر معارف القرآن:۱؍۵۵۸،۵۵۹۔..۱۹۸۳ء