کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 31
سے نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح کے ذریعے ہی سے اُن کے درمیان تعلق بحال ہوسکتا ہے جب کہ پہلی اور دوسری طلاق میں دونوں راستےکھلے ہوتے ہیں، عدّت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے اور عدّت گزر جانے کے بعد دوبارہ اُن کےدرمیان نکاح جائز ہے۔لیکن تیسری طلاق کےبعد یہ دونوں ہی راستے بند ہوجاتے ہیں۔اب ان کےدرمیان دوبارہ نکاح کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ مطلقہ کسی اور شخص سے نکاح کرے، پھر اتفاق سے ان کے درمیان نباہ نہ ہوسکے اور وہ طلاق دے دے یا وہ فوت ہوجائے تو طلاق یا وفات کی عدت گزارنے کے بعد وہ زوجِ اوّل سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں تمام مفسرین زوج اوّل کے لئے حلال ہونے کا یہی واحد مشروع طریقہ بیان کرتے ہیں، کسی بھی مفسر نے یہ جرأت نہیں کی کہ اس آیت کے عموم سے حلالۂ ملعونہ کا بھی جواز ثابت کرے جس سے نکاحِ متعہ بھی از خود جائز قرار پاجائے۔ماضی قریب کےچند حنفی مفسرین کےحوالے ملاحظہ فرمائیں، جن سب کا خصوصی تعلق دارالعلوم دیوبند ہی سے ہے جو پاک و ہند کے علماے احناف کی مسلّمہ مادرِ علمی ہے۔ ۱۔مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم لکھتے ہیں: ''پھر اگر (دو طلاقوں کے بعد) کوئی (تیسری)طلاق بھی دے دے عورت کو تو پھر وہ (عورت) اس (تیسری طلاق دینےوالے) کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس (خاوند) کےسوا اور خاوند کےساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے (اور اس سےہم بستری بھی ہو) پھر اگر یہ (دوسرا خاوند) اس (عورت) کو طلاق دے دے (اور عدت بھی گزر جائے) تو ان دونوں پرکچھ گناہ نہیں کہ (دوبارہ نکاح کرکے) بدستور پھر مل جاویں...'' آیت کے اس تفسیری ترجمے کے بعد مولانا تھانوی فرماتے ہیں: ''ف: اس کو حلالہ کہتے ہیں، جب کوئی شخص اپنی بی بی کو تین طلاق دے گا پھر دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرنےکے لئے یہی حلالے کاطریق شرط ہے...''[1]
[1] تفسیر بیان القرآن، ص۷۵، مطبوعہ تاج کمپنی