کتاب: محدث شمارہ 364 - صفحہ 30
ردّ کردیا۔ترجمہ یوں ہے: ''ایک شخص حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللہ عنہما کےپاس آیا اور اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اُس کے بھائی نے اپنے بھائی سے مشورہ کیےبغیر اس کی بیوی(اپنی بھابھی)سے اس نیت سے شادی کرلی تاکہ وہ اپنے بھائی کےلئے اپنی (مطلقہ ثلاثہ) بیوی سے(دوبارہ)نکاح کرنے کو جائز کردے۔(یعنی بنیۃ التحلیل عارضی نکاح کی بابت پوچھا، جس کو احناف جائز کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور کیااس طرح وہ زوج اوّل کے لئے حلال ہوجائے گی؟) حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ نکاح نہیں ہے، نکاح تو وہ ہے جو (بغیر شرطِ تحلیل اور بغیر نیتِ تحلیل کے) اپنی رغبت سے کیا جائے (گویا یہ زنا ہے) ہم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا سمجھتے تھے۔'' کتنی واضح حدیث ہے اور اس کے ساتھ مولانا موصوف کا یہ اعتراف بھی ہے کہ یہ حدیث بالکل صحیح بھی ہے اور اس کا کوئی جواب بھی آج تک کسی حنفی عالم نے نہیں دیا ہے۔سبحان اللّٰہ، جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے! ... اس صحیح اور لاجواب حدیث سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہورہا ہےکہ نکاح حلالہ،چاہے شرط کے ساتھ نہ بھی ہو لیکن نیت حلالے کی ہو تو وہ حرام اور زنا کاری ہے اور زنا کاری کے ذریعے سے ایسی عورت پہلے خاوند کے لئے کس طرح حلال ہوجائے گی؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پہلے میاں بیوی حلالۂ ملعونہ کے بعد دوبارہ آپس میں بظاہر ازدواجی تعلق قائم کریں گے تو یہ جائز ملاپ نہیں ہوگا بلکہ وہ زانیوں کاملاپ ہوگا اور ساری عمر زنا کاری کے مرتکب رہیں گے۔ قرآنی آیت سے استدلال کی حقیقت اب ہم آتے ہیں قرآنِ کریم کی آیت﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ کی طرف جس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اُنہوں نے اس صحیح حدیث کو، جس سے اس آیت کی تخصیص بھی ہوتی ہے اور صحیح مفہوم کی وضاحت بھی، اپنے ایک خود ساختہ اُصول کے حوالے سےٹھکرا دیا ہے اور وہ حدیث ہے: ((لعن اللّٰہ المحل والمحلل له)) قرآنِ کریم کی آیت کا مطلب یہ ہےکہ تیسری طلاق کے بعد اب خاوند اپنی مطلقہ بیوی